سیکولرزم کے موقف کو ظاہر کرنے کی کوشش

تاثیر  29  نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پارلیمنٹ کے جاری سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے کے آخری دن لوک سبھا میں وقف بل پر رپورٹ پیش نہیں ہو سکی۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کل یعنی 29 نومبر کو وقف بل پر اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے والی تھی۔ موجودہ اجلاس کے ایجنڈے میں   وقف بل بھی شامل تھا۔دوسری جانب جے پی سی میں شامل اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ جے پی سی میعاد میں توسیع کا مطالبہ کر رہے تھے۔مگر اس کمیٹی کی قیادت کر رہے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم پی جگدمبیکا پال مسلسل یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ہماری رپورٹ تیار ہے۔ وہ اس کو رواں اجلاس میں ہی پیش کریں گے۔مگر اپوزیشن کے دباؤ کے آگے ان کی ایک نہیں چلی ۔چنانچہ ایوان میں اپنی رپورٹ پیش کرنے سے ایک دن پہلے یعنی 28 نومبر کو ہی جے پی سی کی میعاد بڑھا دی گئی ہے۔ جے پی سی کے سربراہ جگدمبیکا پال نے مزید وقت کا مطالبہ کرتے ہوئے کمیٹی کی میعاد میںتوسیع کی تجویز لوک سبھا میں پیش کی، جسے منظور کر لیا گیا۔اب مانا جا رہا ہے کہ جے پی سی بجٹ سیشن، 2025 کے آخری دن ایوان میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
اُدھر وقف ترمیمی بل کی حمایت اور مخالفت کو لیکر بہار کی سیاست میں گھماسان مچا ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پر اسرار خاموشی پر اپوزیشن سے لے کر عوام کی جانب سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔جے ڈی یو کے سابق قومی صدر اور مرکزی وزیر راجیو رنجن عرف للن سنگھ نے جس طرح لوک سبھا میں وقف بورڈ ترمیمی بل کی حمایت کی ہے اور اور مظفر پور کی ایک پارٹی جلسے میں، جے ڈی یو کو ووٹ دینے کے معاملے میں جس طرح سے مسلمانوں کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے، اسے سیاسی مبصرین نتیش کمار کی شبیہ کے لئے ہی نقصاندہ مان رہے ہیں۔    ایسے میں مانا یہ جا رہا ہے کہ نتیش کمار نے ریاست کی موجودہ سیاست کے مد نظر ڈیمیج کنٹرول کی پالیسی اپناتے ہوئے پارٹی لیڈر غلام رسول بلیاوی کو وقف بورڈ کی پچ پر بیٹنگ کے لیے پارٹی کا قومی جنرل سکریٹری بنایا ہے۔ غلام رسول بلیاوی نے اپنا کام شروع بھی کر دیا ہے۔ اب وہ ایک طرف مسلمانوں بالخصوص وقف بورڈ کے حوالے سے نتیش کمار کی خدمات کی تشہیر کر رہے ہیں تو دوسری طرف’’ گٹھبندھن دھرم‘‘  کو در کنار کر بی جے پی پر حملہ بھی کر رہے ہیں۔ وقف ترمیمی بل کے حوالے سے جنتا دل (یو) کے سابق راجیہ سبھا ایم پی غلام رسول بلیاوی  کہتے ہیں کہ مرکزی حکومت ملک کے خزانے سے اقلیتوں کو ایک چونّی بھی نہیں دیتی ہے، لیکن سکہ دینے کا شور ضرور مچاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ ہم سیاسی اتحاد سے اوپر اٹھ کر براہ راست بات کر رہے ہیں۔ ہمارا رشتہ وقف بورڈ سے بھی ہے۔ وقف بورڈ کے لیے بہتر کام کرکے نتیش کمار نے ملک میں ایک نمونہ پیش کیا ہے۔ مرکزی حکومت کو وقف بورڈ کے حقوق میں ترمیم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بی جے پی پورے آئین کو بدل رہی ہے۔ اگر مرکزی حکومت وقف بورڈ کی جائیدادوں کا سروے کراکر انہیں اقلیتوں کو واپس کردے تو اس کے بعد ملک کی مسلم آبادی کو حکومت کی مدد کی قطعی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ملک بھر میں جہاں کہیں بھی وقف بورڈ کی جائیداد ہے وہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ حکومت جائیداد کی واپسی کا بل لائے۔ یہ قومی اور عوامی مفاد میں ہوگا۔‘‘
جب سے غلام رسول بلیاوی کو جے ڈی یوکے قومی جنرل سکریٹری کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تب سے وہ وقف ترمیمی بل کے حوالے سے خوب بول رہے ہیں۔مانا جارہا ہے کہ وہ ایک طرف نتیش کمار کے غیر معلنہ موقف کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف مرکزی وزیر راجیو رنجن عرف للن سنگھ کے ذریعہ پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کی حمایت میں ظاہر کئے گئے خیالات کی تردید بھی کر رہے ہیں۔   ان کا کہنا ہے کہوقف ترمیمی بل کے سلسلے میں جے ڈی یو کی جانب سے 31 صفحات پر مشتمل ایک تجویز جے پی سی کو بھیجی گئی ہے۔ بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو اور دوسرے اپوزیشن لیڈر کے اس مطالبے کے حوالے سے ، جس میں وہ نتیش کمار سے وقف ترمیمی بل پر اپنا موقف واضح کرنے کو کہہ رہے ہیں، غلام رسول بلیاوی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ کب کہے گی۔  یعنی غلام رسول بلیاوی کا یہی کہنا ہے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں، وہی جے ڈی یو کا موقف ہے۔وقف ترمیمی بل یا مسلمانوں کے ووٹ دینے نہیں دینے کے حوالے سے راجیو رنجن عرف للن سنگھ کے جو خیالات ہیں وہ ان کے اپنے ہیں۔ پارٹی کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
  اِدھر سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ جے ڈی یو کے سابق قومی صدر اور مرکزی وزیر راجیو رنجن سنگھ عرف للن سنگھ نے لوک سبھا میں مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے وقف بورڈ ترمیمی بل کے حق میں جو تقریر کی تھی اور اب اس کے بر عکس غلام رسول بلیاوی کی جو رائے آ رہی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے میں جے ڈی یو منقسم ہے۔ظاہر ہے یہ صورتحال مسلم مفادات کی سیاست کرنے والی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے لیے باث تشویش بن گئی ہے۔ چنانچہ ابھی بھی نتیش کمار سے یہ امید کی جارہی ہے کہ وہ اپنی خاموشی توڑیں اور للن سنگھ کے بیان کو ان کا ذاتی بیان قرار دیں اور واضح کریں کہ یہ پارٹی کا بیان نہیں ہے۔ لیکن مانا جا رہا ہے کہ غلام رسول بلیاوی کو میدان میں اتار کر بطور تجربہ نتیش کمار اپنے سیکولرزم کے موقف کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ بہار کے عوام غلام رسول بلیاوی کے بیان میں وزیر اعلیٰ کے موقف کو کہاں تک دیکھ پاتے ہیں۔