مصنوعی ترجمہ ہماری ذہانت کا ہی انعکاس ہوتا ہے: پروفیسر غضنفر

تاثیر  09  نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

نئی دہلی9 نومبر : آج اردو ادب کا جو منظرنامہ ہے اس میں افسانچہ اور ناول بہت زیادہ لکھے جارہے ہیں۔ افسانچہ کے نام پر جو لکھا جارہا ہے اس کا جائزہ لینے اور ادبی حیثیت متعین کرنیکی ضرورت ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ مصنوعی ترجمہ ہماری ذہانت کا ہی انعکاس ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اچھی، معلوماتی اور کارآمد چیزیں اَپ لوڈ کی جائیں تاکہ مصنوعی ذہانت سے ہم خاطرخواہ استفادہ کرسکیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز فکشن نگار پروفیسر غضنفرنے قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیراہتمام ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے اشتراک سے منعقدہ سہ روزہ قومی سمینار بعنوان ’معاصر اردو ادب کا تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی منظرنامہ ’ کے دوسرے دن کے پہلیسیشن میں کیا۔ اس نشست میں پروفیسر عباس رضا نیر ،پروفیسر ابوبکر عباد، ڈاکٹرشمیم احمد اور ڈاکٹر عبدالحی نے مقالات پیش کیے۔ اس سیشن کے دوسرے صدرپروفیسر شہا ب عنایت ملک نے تمام مقالات پر مختصرا گفتگو کی اور مقالہ نگاران کی کوششو ں کو سراہا۔ انھوں نے کہا کہ کونسل ایسا ادارہ ہے جو ملکی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اردو کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ صدی سوشل میڈیا اور کمپیوٹر کی صدی ہے۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب نے کی۔