مسلمانوں کے اعتماد میں اضافے کی کوشش

تاثیر  27  نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

نریندر مودی حکومت میںجنتا دل یونائیٹڈ( جے ڈی یو) کوٹہ کے وزیر راجیو رنجن عرف للن سنگھ کےذریعہ پچھلے دنوں مظفر پورمیں منعقد ایک پارٹی پروگرام میں بہار کے مسلمانوں کے حوالے سے دئے گئے بیان کے بعد سے ریاست کی سیاست میں آیا ہوا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔حالانکہ لن سنگھ نے اگلے ہی دن اپنے بیان کے لئے عوامی طور پر معافی بھی مانگ لی تھی۔اس کے باوجود جے ڈی یو سے وابستہ لیڈروں کو اس بیان کی لیپا پوتی کرنی پڑ رہی ہے۔وزیر اشوک چودھری یہ کہہ کر ڈیمج کنٹرول کی کوشش کر رہے ہیں کہ نتیش کمار نے بلا امتیاز ہر مذہب اور برادری کے لوگوں کے لیے کام کیا ہے۔انھوں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بجٹ میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ لیکن، یہ بھی سچ ہے کہ نتیش کمار کے کام کے تناسب میںمسلما ن انھیں ووٹ نہیں دیتے ہیں۔وزیر اشوک چودھری کی ہاں میں ہاں ملانے والوں میں جے ڈی یو سے جڑے چند دوسرے لیڈر بھی شامل ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف اقلتی فلاح کے وزیر محمد زماں خاں اشوک چودھری کے موقف سے الگ ہٹ کر کہتے ہیں کہ نتیش کمار سبھی مذہب اور برادری کے لئے کام کرتے ہیں اور سبھی مذہب اور برادری کے لوگ انھیں ووٹ بھی دیتے ہیں۔مگر تمامتر کوششوں کے باوجود بات بنتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اپوزیشن کے متعدد لیڈروں کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی سوشل میڈیا کے توسط سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ابھی حال میں، بہار کی چار اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات کے حوالے سے للن سنگھ یہ بتائیں کہ ان کی برادری کے کتنے فیصد ووٹروں نے جے ڈی یو کو ووٹ دئے ہیں۔کچھ دن پہلے للن سنگھ کی برادری سے تعلق رکھنے والے ، سیتامڑھی حلقہ سےجدیو ایم پی دیویش چندر ٹھاکر بھی مسلمانوں پر جدیو کوووٹ نہیں دینے کا الزام عاید کرتے ہوئے اعلانیہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا کوئی کام نہیں کریں گے۔دیویش چندر ٹھاکر کے اس الزام کی تائید بی جے پی کے فائر برانڈ لیڈر اور ٹکسٹائل وزیر گریراج سنگھ نے بھی کی تھی۔ان دونوں لیڈروں کے بیان پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی خاموشی پر عام لوگوں کو حیرت بھی ہوئی تھی۔ حالانکہ اُن دنوں یہ بات چرچا میں ضرور آئی تھی کہ دیویش چندر ٹھاکر کے اس بیان پر نتیش کمار نے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا۔پھر بعد میں بات آئی گئی ہوگئی تھی، لیکن تقریباََ پانچ ماہ بعددیویش چندر ٹھاکر اور گریراج سنگھ والی بات کو دہراکر للن سنگھ نے بہار کی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی ہے۔ للن سنگھ کے بارے میں اِن دنوں عام چرچا ہے کہ وہ آر سی پی سنگھ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
للن سنگھ کے بیان پر بظاہر نتیش کمار کی خاموشی کا مطلب کچھ لوگ اپنے اپنے ڈھنگ سے نکالنے میں لگے ہوئے ہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نتیش کمار کی خاموشی میں بھی عموماََبڑی باتیں پوشیدہ رہتی ہیں ۔کچھ لوگ یہ مان رہے ہیں کہ مسلمانوں کے تئیں نتیش کمار کے رویے سے لگتا ہے کہ للن سنگھ کی بات سے وہ قطعی متفق نہیں ہیں۔ دوسری جانب للن سنگھ کے بیان پر آر جے ڈی لیڈر اور سابق ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کی صحبت کا اثر ہے۔ وہ سابق مرکزی وزیر آر سی پی سنگھ کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب آر سی پی سنگھ جے ڈی یو کے کوٹے سے مودی کی پہلی کابینہ کے رکن بنے تو وہ اپنی ہی پارٹی کے بہار کو خصوصی درجہ دینے کے مطالبے کو مسترد کرتے رہے ۔ان کے بارے میںیہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے نتیش کمار کی خواہش کے خلاف وزارتی عہدہ قبول کر لیا تھا۔ جبکہ نتیش کمار نے ایک وزارتی عہدے کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جے ڈی یو نے انہیں ایک اور موقع نہیں دیا ۔ ساتھ ہی قومی صدر کا عہدہ بھی ان سے چھین لیا گیا۔آج جو آر سی پی کا حال ہے اس سے دنیا واقف ہے۔ اب انھیں بی جے پی بھی نہیں پوچھ رہی ہے۔چنانچہ ان کو اپنی ہی پارٹی ’’آپ سب کی آواز‘‘ بنانی پڑ گئی ہے۔
اِدھر یہ مانا جا رہا ہے کہ مرکزی وزیر راجیو رنجن عرف للن سنگھ کے متنازعہ بیان سے اٹھے سیاسی طوفان کو روکنے کے لئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے غلام رسول بلیاوی کو جے ڈی یو کا جنرل سکریٹری بنایا ہے۔ غلام رسول بلیاوی کا آبائی وطن بلیا، اتر پردیش ہے۔ ایک عرصہ سے وہ بہار کی سیاست میں سرگرم ہیں۔اس سے قبل وہ جے ڈی یو کے رکن پارلیمنٹ، قانون ساز کونسلر اور جنرل سکریٹری رہ چکے ہیں۔ 2015 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے وہ رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی چھوڑ کر جے ڈی یو میں شامل ہو گئے تھے۔بلیاوی للن سنگھ کی ٹیم میں جنرل سکریٹری بھی تھے، لیکن جب نتیش نے پارٹی کی کمان سنبھالی تو انہیں نئی ٹیم میں جگہ نہیں ملی تھی۔ان میں بھرپور تنظیمی صلاحیت ہے۔ بڑے اچھے مقرر ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ نتیش کمار بھی ان کی اس صلاحیت سے بخوبی واقف ہیں۔ مانا یہ جارہا ہے کہ بحیثیت جنرل سکریٹری ان کے جڑنے سے پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ 2025 کے اسمبلی انتخابات کے دن دھیرے دھیرے قریب آ رہے ہیں۔اگلے اسمبلی انتخابت میں مسلم ووٹوں کے لیے آر جے ڈی، اے آئی ایم آئی ایم اور جن سورج پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ ایسے میں بلیاوی کی تقرری کو نتیش کمار کا ایک اسٹریٹجک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔کچھ لوگ اس قدم کو ایک تیر سے دو شکار بتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرف مسلمانوں کے حوالے سے للن سنگھ کے بے تکے بیان کا سیدھا جواب ہے تو دوسری طرف اپنی پارٹی جے ڈی یو کے تئیں مسلمانوں کے اعتماد میں خاطر خواہ اضافے کی کوشش بھی ہے۔