تاثیر 06 نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
امریکی صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوارڈونلڈ ٹرمپ نے اکثریت حاصل کر لی ہے۔ چنانچہ اب وہ امریکہ کے 47ویں صدر بن گئے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس سخت مقابلے کے باوجود اکثریت کے لیے درکار 270 نشستوں سے پیچھے چھوٹ گئی ہیں۔ ٹرمپ پہلی بار 2016 میں صدر بنے تھے، لیکن 2020 میں جو بائیڈن سے ہار گئے۔ حالیہ نتائج کے بعد ٹرمپ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلے سیاستدان ہیں جو 4 سال کے وقفے کے بعد دوبارہ صدر بنے ہیں۔ ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے رہنما ہیں، جنہوں نے صدارتی انتخابات میں خاتون امیدوار کو دو بار شکست دی ہے۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 2016 اور 2024 کے علاوہ اب تک کسی خاتون نے صدارتی انتخاب نہیں لڑا۔ ٹرمپ دونوں بار الیکشن جیت چکے ہیں۔اس فتح کے بعد امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنی اہلیہ میلینیا ٹرمپ کے ساتھ اپنے حامیوں سے خطاب کے دوران اپنی جیت کا اعلان کر دیا۔ خطاب میں انہوں نے اپنے ووٹرز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ تاریخ کا سب سے عظیم سیاسی لمحہ ہے۔ میں امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بناؤں گا۔ اللہ نے اس دن کے لیے میری جان بچائی تھی۔ہم نے وہ کیا، جسے لوگ ناممکن سمجھتے تھے۔ یہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی فتح ہے۔ میں ملک کے تمام مسائل حل کروں گا، امریکی عوام کے خاندان اور ان کے مستقبل کے لیے لڑوں گا۔ اگلے 4 سال امریکہ کے لیے اہم ہیں۔ ‘‘ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ 47ویں صدر کی حیثیت سے ہر دن عوام کے لیے کام کریں گے اور امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے مشن کو پورا کریں گے۔انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ تب تک آرام نہیں کریں گے جب تک ایک مضبوط، محفوظ اور خوشحال امریکہ فراہم نہیں کر دیتے۔ ٹرمپ نے کہا، ’’میں ہر روز اپنی ہر سانس کے ساتھ آپ کے لیے جدوجہد کروں گا۔‘‘ واضح ہو کہ ٹرمپ پر 13 جولائی کو پنسلوانیا میں حملہ ہوا تھا۔ ایک گولی اس کے کان کو لگی اور باہر نکل گئی۔اس جان لیوا حملے میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔
امریکی صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اور ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کی شکست کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات میں متعدد فیکٹر ہوتے ہیں، جن پر امیدوار کی ہار اور جیت منحصر ہوتی ہے۔ لیکن بائیڈن حکومت کی خارجہ پالیسی نے بھی کملا ہیرس کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ دراصل، اسرائیل کی فلسطین کے خلاف جارحیت اور ایران کے ساتھ تعلقات میں سخت رویہ، بائیڈن حکومت کی پالیسیوں میں ایک نمایاں پہلو رہا ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت نے ان پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، جس کا سیدھا اثر نائب صدر کملا ہیرس کی انتخابی مہم پر پڑا۔قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی عالمی پالیسی میں اسرائیل کی حمایت ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ کملا ہیرس، جو کہ بائیڈن کی نائب صدر ہیں، اس پالیسی کی بڑی حامی رہی ہیں۔ تاہم، ان کی سیاسی حیثیت اس وقت متاثر ہوئی جب عوام نے ان کے اور بائیڈن کی پالیسیوں کو فلسطین اور ایران کے معاملے میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ انتخابی مہم کے دوران ہیرس نے بار بار اپنی حمایت کا اظہار کیا،لیکن یہ پالیسیوں کی عوامی ناپسندیدگی سے بچ نہ سکیں۔ ایک طرف جہاں بعض حلقے اسرائیل کے حق میں تھے، وہیں بہت سے لوگ فلسطین اور ایران کے حوالے سے زیادہ نرم موقف کے حامی تھے۔کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطین اور ایران کے بارے میں بائیڈن اور ہیرس کی پالیسیوں نے ان کے لئے انتخابی مشکلات پیدا کیں۔ یہ پالیساں خاص طور پر ان ووٹرز کے لئے پریشانی کا سبب بنیں، جو جنگ اور بیرونی مداخلت کے خلاف تھے۔ عوام نے محسوس کیا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اخلاقی اصولوں کا فقدان ہے اور اس کے نتیجے میں کملا ہیرس کو انتخابی میدان میں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ بائیڈن حکومت نے فلسطین اور ایران کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوشش کی، لیکن امریکی عوام کا ردعمل اور عالمی سطح پر ان پالیسیوں کی مخالفت سے کملا ہیرس کی انتخابی مہم کو بری طرح سے متاثر کیا۔آخرکار، کملا ہیرس کی انتخابی ناکامی ایک گہرے سیاسی پیغام کا اشارہ ہے کہ امریکی عوام کا ردعمل خارجہ پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اور یہ کملا ہیرس کی سیاسی حکمت عملی میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
اِدھر وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر اور اپنے دیرینہ دوست ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے دونوں ملکوں (بھارت اور امریکہ) کے عوام کی خوشحالی اور عالمی امن، استحکام اور ترقی کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے بھی صدارتی انتخاب میں فتح پر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے بھارت اورامریکہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بھارت اور امریکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط اور جامع عالمی اسٹریٹیجک شراکت داری موجود ہے، جس کی بنیاد مشترکہ جمہوری اقدار، مشترکہ مفادات اور عوامی سطح پر گہرے روابط ہیں۔اس اعتبار سے یہ واضح ہے کہ وطن عزیز بھارت عالمی امن اور خوشحالی کے لئے امریکہ کے ساتھ ایک بار پھر قریبی اور مضبوط تعاون کا منتظر ہے۔