تاثیر 28 نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
آج کا دور مشکلات، فتنے اور آزمائشوں سے بھرا ہوا ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہےاور مسلمانوں کو اس بدلتی ہوئی دنیا میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ کہیں اسلاموفوبیا کا سامنا ہے، تو کہیں اخلاقی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی نے امت کو کمزور کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں بحیثیت ایک امت، مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو مضبوط کریں۔ ایمان کی مضبوطی، صبر و استقامت اور اتحاد یہ وہ تین ستون ہیں، جن پر مسلمانوں کی کامیابی کا انحصار ہے۔
ایمان کسی بھی مسلمان کی زندگی کی بنیاد ہے۔ یہ یقین کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کا خالق و مالک ہے، وہی تمام معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے والا ہے اور وہی مسلمانوں کو ہر طرح کی آزمائش میں ثابت قدم رکھتا ہے۔آج کے مادی دور میں، جہاں دنیاوی چمک دمک اور نفس پرستی نے انسان کو گمراہ کر دیا ہے، ایمان کی مضبوطی ہی وہ روشنی ہے، جو مسلمان کو اندھیروں سے نکال کر ہدایت کے راستے پر گامزن کرتی ہے۔قرآن پاک (سورۃ البقرۃ: 25) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے، ان کے لیے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔‘‘ یہ آیت مسلمانوں کو یاد دلاتی ہے کہ ایمان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ ایمان کا مطلب صرف زبانی اقرار نہیں بلکہ دل سے اللہ کی وحدانیت کو ماننا اور اس کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ایمان کو کمزور کرنے والے کئ طرح کے عوامل آج ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ جدید تعلیم اور سائنسی ترقی نے بعض مسلمانوں کو دین سے دور کر دیا ہے۔مادی فوائد کے حصول کی دوڑ نے بھی لوگوں کو دینی اقدار سے غافل کر دیا ہے۔عبادات اور اخلاقی اصولوں کی پابندی میں کمی سے بھی ہمارا ایمان کمزور ہوا ہے۔ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھاجائے اور اللہ کے احکامات کو اپنی زندگی کے ہر ایک شعبے میں نافذ کیا جائے۔نبی کریم ﷺ کی سیرت کو بھی مشعل راہ بنانا ضروری ہے۔ نماز، دعا اور ذکر و اذکار سے اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط کیا جائے۔ دنیاوی مشکلات، معاشرتی مسائل اور دین پر عمل کرنے میں پیش آنے والی رکاوٹیں مسلمانوں کے لیے ایک امتحان ہیں۔ اس طرح کے امتحانات میں صبر و استقامت کا مظاہرہ ہی در اصل کامیابی کی کنجی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک (سورۃ البقرۃ: 155) میں فرماتے ہیں:’’اور بے شک ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک، مال اور جان کے نقصان سے آزمائیں گے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔‘‘یہ آیت واضح کرتی ہے کہ آزمائشیں اللہ کی طرف سے آتی ہیں اور ان کا مقصد بندے کو مضبوط بنانا ہے۔
عبادات اور اللہ کے احکامات پر عمل پیرا رہنے میں ثابت قدم رہنا اور معصیت سے خود کو بچا ئے رکھنا بھی مضبوط ایمان کا تقاضہ ہے۔آج کے دور میں مسلمانوں کے لیے اپنی دینی اقدار پر قائم رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ مغربی ثقافت، میڈیا کا دباؤ اور اسلاموفوبیا مسلمانوں کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لئے مسلسل کوشاں ہیں۔ ایسے میں صبر و استقامت ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو مسلمانوں کو اپنی شناخت اور ایمان پر قائم رہنے میں مدد دیتا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے راستے میں آنے والی تمامتر پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ باہمی اتحاد کی کمی بھی ہے۔ فرقہ بندی ،ذات پات، مسلکی اختلافات اور ذاتی مفادات نے امت کو کئی حصوں میں منقسم کر دیا ہے۔ جبکہ اسلام ہمیں اختلافات کو بھلا کر اتحاد کی تلقین کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید (سورۃ آل عمران: 103) میں فرماتے ہیں:’’اور تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘ یہ آیت مسلمانوں کو یہ حکم دیتی ہے کہ وہ دین اسلام کے مشترکہ اصولوں پر متحد رہیں اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظر انداز کریں۔ قرآن شریف کی اس چھوٹی سی آیت میں مسلمانوں کی بڑی کامیابی اوربے پناہ طاقت کا راز پوشیدہ ہے ۔اتحاد کے ذریعے مسلمان اپنی سیاسی، اقتصادی اور سماجی حیثیت کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ اسلاموفوبیا اور دیگر مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اتحاد کے ذریعے مسلمان اپنے اندرونی مسائل کو حل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ اس کے بر عکس امت مسلمہ کے شیرازہ کا بکھر جانا طے ہے۔ فرقہ بندی ،ذات پات، مسلکی اختلافات اور ذاتی مفادات کے باعث اسلام کا مثبت پیغام دنیا کے سامنے نہیں آ پا رہا ہے۔ اختلافات مسلمانوں کو آپس میں لڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔آج کے دور میں مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور دینی اور عصری تعلیم کے میدان میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت مندوں کی مدد اور سماجی مسائل کے حل کے لیے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے پیغام کو حکمت اور اخلاق کے ساتھ پوری دنیا میں عام کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہی ہے۔اس کے لئے سب سے پہلے باہمی محبت اور رواداری کو فروغ دینا ہوگا ۔اس کے لئے مضبوط ایمان، صبر و استقامت اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند باہمی اتحاد کا ہونا لازمی ہے۔ یہ تینوں عناصر نہ صرف انفرادی زندگی کو بہتر بنانے میں معاون ہونگے بلکہ امت مسلمہ کی اجتماعی ترقی کے بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ضامن ہونگے۔چنانچہ اقتضائے حالات کے تحت سب سے پہلے ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی کو سنوارنے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔