تاثیر 18 دسمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
ون نیشن ، ون الیکشن کے لئے منگل کو لوک سبھا میں 129 واں آئینی بل پیش کیا گیا۔ اسے پیش کرنے سے پہلے الیکٹرانک ووٹنگ کی گئی۔ اس کے حق میں 269 اور مخالفت میں 198 ووٹ پڑے۔ ووٹنگ کے بعد مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے اسے ایوان میں پیش کیا۔ ون نیشن ون الیکشن کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے انتخابات کے ساتھ ساتھ تمام ریاستوں کے اسمبلی انتخابات بھی کرائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں یعنی میونسپل کارپوریشن، میونسپلٹی، نگر پنچایت اور گرام پنچایتوں کے انتخابات بھی ہونے چاہئیں۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ یہ انتخابات ایک ہی دن یا ایک مقررہ وقت کے اندر کرائے جا سکتے ہیں۔ کئی سالوں سے پی ایم نریندر مودی لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے پر زور دے رہے ہیں۔
پی ایم نریندر مودی نے بھی اس سال 15 اگست کو یوم آزادی کی تقریب کے دوران لال قلعہ سے اپنی تقریر میں ایک ملک، ایک انتخاب کی وکالت کی تھی۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے بی جے پی نے اسے اپنے انتخابی منشور میں نمایاں طور پر شامل کیا تھا۔حالانکہ ون نیشن، ون الیکشن کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے خیالات مختلف ہیں۔بعض سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ ایسے انتخابات سے قومی جماعتوں کو فائدہ ہوگا ،لیکن علاقائی جماعتوں کو نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بالخصوص علاقائی جماعتیں ایسے انتخابات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر ون نیشن ،ون الیکشن کا التزام ہوا تو قومی مسائل کے سامنے ریاستی سطح کے مسائل دب جائیں گے۔ اس سے ریاستوں کی ترقی متاثر ہوگی۔قابل ذکر ہے کہ آزادی کے بعد جب ملک 1950 میں جمہوریہ بنا تو 1951 سے 1967 کے درمیان ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے تھے۔ اس وقت لوک سبھا کے ساتھ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہوئے تھے۔ 1952، 1957، 1962 اور 1967 میں بیک وقت انتخابات ہوئے۔ اس کے بعد کچھ ریاستوں کی تنظیم نو کی گئی اور کچھ نئی ریاستیں بنائی گئیں۔ جس کی وجہ سے مختلف اوقات میں انتخابات ہونے لگے۔
جہاں تک دوسرے ممالک میں ون نیشن، ون الیکشن کے نظام کا تعلق ہے تو اس فہرست میں امریکہ، فرانس، سویڈن، کینیڈا وغیرہ شامل ہیں۔ امریکہ میں صدر، کانگریس اور سینیٹ کے انتخابات ہر چار سال بعد ایک مقررہ تاریخ پر ہوتے ہیں۔ یہاں، مربوط انتخابی عمل کو آسان بنانے کے لیے، ملک کے تمام اعلیٰ ترین عہدوں کے لیے ایک ساتھ انتخابات منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے وفاقی قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔بھارت کی طرح فرانس میں بھی پارلیمنٹ کا ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی ہے۔ وہاں، قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صدر، وفاقی حکومت کے سربراہ کے ساتھ ساتھ سربراہان مملکت اور نمائندوں کے انتخابات ہر پانچ سال بعد ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ سویڈش پارلیمنٹ اور مقامی حکومت کے انتخابات ہر چار سال بعد ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ میونسپل اور کاؤنٹی کونسل کے انتخابات بھی ان انتخابات کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔
بھارت میں ون نیشن، ون الیکشن کے راستے پر ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے، 2 ستمبر 2023 کوسابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس کمیٹی نے اِس سال 14 مارچ کو صدر دروپدی مرمو کو اپنی رپورٹ سونپی ہے۔ کمیٹی نے ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز سے 191 دن تک بات چیت کے بعد 18 ہزار 626 صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی تھی۔ اس میں تمام ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں کی میعاد 2029 تک بڑھانے کا مشورہ دیا گیا ہے، تاکہ ان کے انتخابات لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ہی کرائے جا سکیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معلق اسمبلی یا تحریک عدم اعتماد کی صورت میں پانچ سال کے بقیہ وقت میں نئے انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔پہلے مرحلے میں لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ دوسرے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات 100 دن کے اندر کرائے جا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ سیکورٹی فورسز، انتظامی افسران، ملازمین اور مشینوں وغیرہ کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
دریں اثنا بی جے پی اور اس کے ہمنوا سیاسی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ ون نیشن ، ون الیکشن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انتخابی اخراجات کم ہوں گے۔ ہر بار الگ الگ الیکشن کرانے پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ بار بار ہونے والے انتخابات انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز پر بوجھ ڈالتے ہیں، کیونکہ انہیں ہر بار الیکشن ڈیوٹی سرانجام دینا پڑتی ہے۔ وہ بار بار الیکشن موڈ میں نہیں جائیں گی اور ترقیاتی کاموں پر توجہ دے سکیں گی۔ ایک ہی دن انتخابات کرانے سے ووٹروں کی تعداد بھی بڑھے گی، کیونکہ ان ذہن میں یہ بات نہیں رہے گی کہ انتخابات تو آتے ہی رہتے ہیں۔ وہ گھروں سے نکل پولنگ مراکز پر جانے اور اپنے نمائندے کے انتخاب میں دلچسپی ظاہر کریں گے۔ مگر اس سسٹم کے نفاذ میں سب سے بڑا چیلنج آئین اور قانون میں تبدیلی ہے۔اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی۔پھر اسے ریاستی اسمبلیوں سے پاس کرانا ہوگا۔ جن ریاستوں میں انڈیا بلاک سے وابستہ جماعتوں کی حکومت ہے، وہاں کی اسمبلیوں سے اس کی منظوری میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کے ذریعے کرائے جاتے ہیں، جن کی تعداد محدود ہے۔اگر لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں تو مزید مشینوں کی ضرورت ہوگی۔ ان کو مکمل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ پھر بیک وقت انتخابات کے لیے مزید انتظامی افسران اور سیکورٹی فورسز کی ضرورت کو پورا کرنا بھی ایک بڑا سوال بن کر ابھرے گا۔یعنی مجموعی طور پر ون نیشن، ون الیکشن کی راہ بہت مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں لگ رہی ہے۔