تاثیر 19 دسمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
راجیہ سبھا میں آئین پر بحث کے دوران بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر پر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ذریعہ دئے گئے بیان کو لے کر قومی سیاست میں جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ ایک طرف کانگریس پارٹی مودی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ یا تو امیت شاہ استعفیٰ دیں یا انہیں کابینہ سے نکالا جائے، وہیں دوسری طرف بی جے پی بھی اس معاملے میں فرنٹ فٹ پر ہے۔کانگریس کا ساتھ دینے والوں میں انڈیا بلاک کے بیشتر لیڈر شامل ہیں۔ وہیں اس معاملے کو بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی بھی بی جے پی کے خلاف بولنے لگی ہیں۔ بات اتنی آگے بڑھ گئی ہے کہ کانگریس اور بی جے پی کے ذریعہ مقامی تھانے میں ایف آئی آر تک درج کرائی جا چکی ہے۔
در اصل بدھ کے روز اپنی تقریر کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ڈاکٹر امبیڈکر کی وراثت پر بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا ِ، ’’امبیڈکر کا نام لینا ان دنوں ایک فیشن بن گیا ہے۔ امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر، اگر آپ نے خدا کا اتنا نام لیا ہوتا تو آپ سات جنموں کے لیے جنت میں چلے جاتے۔‘‘ اسی بات کو لیکر کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے پارلیمنٹ میں مظاہرہ کیا۔ ملکارجن کھڑگے نے پی ایم مودی سے امیت شاہ کو اپنی کابینہ سے برخاست کرنے کا مطالبہ تک کر دیا۔ کانگریس کے اس رویہ کے پیش نظر امیت شاہ نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں راجیہ سبھا میں امبیڈکر کے بارے میں اپنے ریمارکس پر وضاحت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بحث حقائق اور سچائی پر ہونی چاہیے۔جب یہ ثابت ہو گیا کہ کانگریس امبیڈکر مخالف پارٹی ہے، ریزرویشن مخالف ہے، آئین مخالف ہے، تب کانگریس نے اپنی پرانی حکمت عملی اپنائی اور بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ بر سبیل تذکرہ امت شاہ نے یہ بھی کہہ دیا ، ’’کھڑگے میرا استعفیٰ مانگ رہے ہیں، وہ خوشی محسوس کر رہے ہیں تو شاید میں دے دوں، لیکن اس سے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اب انہیں 15 سال سے وہیں بیٹھنا ہے، میرے استعفیٰ سے ان کی دال نہیں گلے گی۔‘‘ اس طرح آئین پر شروع ہونے والی بحث امبیڈکر کی توہین تک پہنچ گئی۔ امیت شاہ کے بیان کو لے کر کانگریس نے ٹوئٹ کیا اور لکھا کہ بابا صاحب امبیڈکر کے لیے بی جے پی اور آر ایس ایس لیڈروں کے ذہنوں میں بہت نفرت ہے۔ راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ جو لوگ’’ منوسمرتی‘‘ کو مانتے ہیں انہیں امبیڈکر سے ضرور پریشانی ہوگی۔ امبیڈکر کی توہین کو ایک مسئلہ بنا کر اپوزیشن کی طرف سے کئے جا رہے اقدام کا مقابلہ کرنے کے لئے پی ایم نریندر مودی کو مورچہ سنبھالنا اورسوشل میڈیا پر ایک کے بعد ایک چھ پوسٹس کرکے کانگریس کو کٹہرے میں کھڑا کرنا پڑا۔ پی ایم مودی نے کہا کہ جب پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ امت شاہ نے امبیڈکر کی توہین کرنے اور ایس سی اورایس ٹی کو نظر انداز کرنے کی کانگریس کی سیاہ تاریخ کو بے نقاب کیا تو اب کانگریس نے ڈرامہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ پی ایم نے کہا کہ کانگریس کے پاس ڈاکٹر امبیڈکر کے خلاف گناہوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں انہیں دو بار الیکشن ہارنا بھی شامل ہے۔
امبیڈکر کی توہین اور عزت کی اس سیاست میں بی جے پی کہہ رہی ہے کہ کانگریس نے ہمیشہ امبیڈکر کی زندگی میں اور ان کی موت کے بعد بھی توہین کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس یہ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ بی جے پی امبیڈکر اور آئین کا کوئی احترام نہیں کرتی۔ اس صورتحال کے تناظر میں ماہرین کا ماننا ہے کہ ان دونوں کی نظریں امبیڈکر کے نام پر اس بڑے ووٹ بینک پر لگی ہوئی ہیں ،جو بابا صاحب کو سیاسی اور سماجی مسیحا ما ننے والوں کا ہے۔ بلا شبہہ ڈاکٹر امبیڈکر نے نہ صرف ملک کے دلت طبقے کو بلکہ استحصال زدہ اور مظلوم لوگوں کو بھی ایک نئی سمت دکھائی اور آئین کے ذریعے انہیں عزت بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ امبیڈکر کی توہین اور عزت کے بہانے ملک کے دلتوں اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کے ووٹ بینک کو اپنے پالے میں کرنے کی سیاست ملک میں ہوتی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ سے لے کر سڑکوں تک سیاسی لڑائی چھڑ گئی ہے، کیونکہ دلت برادری ملک کی سیاست میں ایک بڑی طاقت مانی جاتی ہے۔
2011کی مردم شماری کے مطابق ملک میں دلتوں کی آبادی تقریباً 16.63 فیصد ہے جو کل آبادی میں 20.14 کروڑ دلت ہیں۔ ملک کی 31 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں درج فہرست ذاتیں ہیں، جنہیں 1241 نسلی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ملک میں 76.4 فیصد دلت دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور 23.6 فیصد دلت شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔ ملک میں لوک سبھا کی کل 543 سیٹیں ہیں۔ ان میں سے 84 سیٹیں درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص ہیں، لیکن ان کا سیاسی اثر 150 سے زیادہ سیٹوں پر ہے۔ اگر ہم سی ایس ڈی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق دلت اکثریت والی لوک سبھا سیٹوں کے ووٹنگ پیٹرن کو دیکھیں تو بی جے پی کو 2024 میں 31 فیصد دلت ووٹ ملے تھے۔ جبکہ 2019 میں یہ تعداد 34 فیصد تھی۔ اس بار 19 فیصد دلت برادری نے کانگریس کو ووٹ دیا ہے۔ کانگریس کے اتحادیوں کو دلت ووٹوں کا زبردست فائدہ ہوا، خاص کر ایس پی کو۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کی سیٹیں کم ہوئی ہیں۔ اگر ہم 156 دلت اکثریتی نشستوں کے نتائج پر نظر ڈالیں تو اپوزیشن اتحاد نے 93 اور این ڈی اے نے 57 نشستیں حاصل کی ہیں۔ دلت ووٹوں والی 156 سیٹوں پر، 2019 کے مقابلے اس بار اپوزیشن کو 53 سیٹوں کا فائدہ ہوا اور این ڈی اے کو 34 سیٹوں کا نقصان ہوا۔ اس سے قبل 2014 اور 2019 میں بی جے پی کو دلتوں کے مکمل ووٹ ملے تھے، جس کی وجہ سے پی ایم مودی مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس راجیہ سبھا میں امیت شاہ کے بیان کو بابا صاحب کی توہین قرار دے کر دلت برادری کا اعتماد جیتنا چاہتی ہے۔ اسے دلت ووٹوں میں دخل اندازی کا پوار موقع مل گیا ہے۔دوسری طرف بی جے پی بھی کانگریس کو امبیڈکر اور دلت مخالف ثابت کرتی رہی ہے۔ اس طرح سچ کہا جائے تو بی جے پی اور کانگریس دونوں کی نظریں دلت ووٹ بینک پر ہیں۔ماہرین کے مطابق اسی کو کہتے ہیں، کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ۔