تاثیر 15 دسمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
بی جے پی کی زیر قیادت ہمنتا بسوا سرما حکومت کے ذریعہ گائے کے گوشت پر پابندی لگا دئے جانے کا رد عمل ریاست کے قبائلی علاقوں میں صاف طور پر نظر آنے لگا ہے۔ قبائلی رہنما اب کھل کر یہ کہنے لگے ہیں کہ ہمارے علاقوں میں اس فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔ آسام میں گائے کے گوشت پر پابندی کے خلاف بازگشت ایک طرف ابھی تیز ہی ہو رہی ہے کہ دوسری جانب پڑوسی ریاست میگھالیہ میں بی جے پی ایم ایل اے سانبور شولائی نے کھل کر اس فیصلے کی مخالفت شروع کر دی ہے۔میگھالیہ کی جنوبی شیلانگ سیٹ سے ایم ایل اے سانبور شولائی کا کہنا ہے کہ میگھالیہ میں ہم لوگ اپنی پسند کا کچھ بھی کھا سکتے ہیں، چاہے وہ سانپ ہو، گائے کا گوشت ہو یا بچھو ہو۔ ہمارے کھان پان پر کوئی روک نہیں لگا سکتا ہے۔سانبور شولائی کا یہ رد عمل نہ صرف سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائرل ہو رہا ہے بلکہ جگہ جگہ ان کے بیان پر مبنی گانے بھی بجائے جا رہے ہیں ۔واضح ہو کہ میگھالیہ آسام کے پڑوس میں واقع ہے۔ وہاں بھی بی جے پی کی حمایت یافتہ حکومت ہے۔ سوشل میڈیا پر سانبور شولائی یہ کہتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں کہ بیف پر پابندی انتخابی مسئلہ ہونا چاہئے۔ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ میگھالیہ میں اس طرح کی پابندی کبھی نہ لگائی جائے۔ میگھالیہ میں بی جے پی کی حلیف اور ریاست کی اہم حکمران جماعت ’’نیشنل پیپلز پارٹی‘‘ کے وزیر رکم سنگما نے بھی آسام کی ہمنتا بسوا سرما حکومت کے فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ہلکے پھلکے لہجے میں ان کا کہنا ہے کہ میگھالیہ کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ میگھالیہ کے برنی ہاٹ اور کھناپارہ علاقے میں اچھے ہوٹل کھولے جائیں اورگاہکوں کو بیف کا اچھا سالن پیش کیا جائے۔ تاکہ آسام کے لوگ میگھالیہ آئیں، خوب کھائیں اور واپس چلے جائیں۔اس کے علاوہ عوامی سطح پر بھی سرما حکومت کے بیف پر پابندی کے فیصلے کے نفاذ میں درپیش دشواریوں کی بھی بات کی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گائے کا گوشت عام طور پر آسام کے کئی علاقوں خصوصاً قبائلی علاقوں میں کھایا جاتا ہے۔ تہواروں اور تقریبوں میں تو خاص طور پر اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کرسمس جیسے اہم تہوار کے مدنظر آسام کے دیفو علاقے کے بزرگ قبائلی رہنما اور سابق وزیر مملکت ہولیرام تیرنگ نے بھی اس فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، ان کا کہنا ہے ، ’’کبردی اور ڈساس کمیونٹی کے لوگ گائے کا گوشت نہیں کھاتے ہیں۔میں بھی نہیں کھاتا ہوں۔لیکن ناگا اور کوکی برادری کے بہت سے لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ یہ عام طور پر کمیونٹی کی تقریبوں اور تہواروں کا ایک اہم حصہ ہے۔میرے خیال سے ایسی متنوع کمیونٹیز کے ساتھ، گائے کا گوشت کے استعمال پر کسی قسم کی پابندی ممکن ہے۔ اس فیصلے کو سختی سے نافذ کرنے کی کوئی بھی کوشش حساس ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘ آسام کی اپوزیشن پارٹی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) نے اس فیصلے کے بارے میں پہلے ہی کہا تھا کہ ریاستی حکومت کو یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کہ لوگ کیا کھائیں گے اور کیا پہنیں گے۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری اور ایم ایل اے حافظ رفیق الاسلام کاکہنا تھا کہ کیا بی جے پی گوا میں گائے کے گوشت پر پابندی نہیں لگا سکتی ؟ اگر وہ وہاں ایسا کرتی ہے تو اس کی حکومت ایک دن کے اندر گر جائے گی۔
دراصل 2011 کی مردم شماری کے مطابق آسا م کی 61.7 فیصد آبادی ہندو ہے۔ جب کہ مسلمان 34.33 فیصد ہیں۔ یہاں 3.74 فیصدعیسائی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق قبائلی آبادی 12.4فیصد ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تنوع کاروی انگلانگ، ویسٹ کبی انگلانگ اور دیما ہاساو کے اضلاع میں ہے۔ ان اضلاع میں 15 تسلیم شدہ ذاتیں چھٹے شیڈول کے تحت آتی ہیں۔ ان میں کارکی، دیماسا، کوکی قبیلہ، ناگا قبیلہ، میزو قبیلہ، حسار، خاصی اور گارو شامل ہیں۔ ہافلونگ میں واقع دیماسا اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سکریٹری پرمتھ سانگیونگ نے بھی گائے کے گوشت پر پابندی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے سے خطے کے تنوع کو نقصان پہنچے گا اور کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سانگیونگ کا کہنا ہے کہ ان کی کمیونٹی گائے کا گوشت نہیں کھاتی، لیکن ان کے ضلع میں13 قبائلی برادریاں ہیں، جن میں سے زیادہ تر عیسائیت کی پیروی کرتے ہیں۔ قبائلی برادریوں کی رضامندی کے بغیر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔ اس سے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ ‘‘
دراصل نومبر کے مہینے میں آسام کی 5 اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوئے تھے۔ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے تمام 5 سیٹیں جیت لیں۔ اس کے بعد کانگریس کے کچھ لیڈروں نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ سرما اور ان کی پارٹی نے الیکشن جیتنے کے لیے قبائیلی اور مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں میں ووٹروں میں گائے کا گوشت تقسیم کیا ہے۔اس پر سی ایم ہمنتا بسوا سرما کو موقع مل گیا ۔ اب وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ کانگریس بھی بیف کو غلط سمجھتی ہے، اس لیے وہ اس پر پابندی لگا کر خوش ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے در اصل کانگریس کو گھیرنے کی کوشش کی گئی ہے۔فیصلے کے مطابق ریاست میں کسی بھی ریستوران، ہوٹل یا عوامی پروگرام اور جگہ پر گائے کا گوشت پیش کرنا اور کھانا ممنوع ہے۔ یہ فیصلہ دسمبر ماہ کے پہلے ہفتے میںلیا گیا تھا۔ فیصلے کے فوراََ بعد جنتا دل یو نائیٹڈ (جے ڈی یو)، جو بی جے پی کے ساتھ بہار میں حکومت چلا ر ہا ہے، نے بھی ا س کو راجدھرم کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کو بلا تاخیر واپس لینے کی اپیل کی تھی۔خیر فیصلہ تو ابھی واپس نہیں لیا گیا ہے ، لیکن اس پر عمل درآمد کی جانب کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ شاید ہمنتا بسوا سرما حکومت کو بھی معاملے کی سنگینی کا احساس ہے۔ ویسے بھی بی جے پی اپنی پارٹی کے کسی مضبوط لیڈر یااپنی حلیف جماعتوں کی ناراضگی کی قیمت پر کوئی ایسا فیصلہ نہیں لینا چاہے گی۔ہمنتا بسوا سرما ایک ماہر سیاست داں ہیں۔ وہ جان بوجھ کر کوئی ایسا فیصلہ لے بھی نہیں سکتے ہیں ، جو انھیں کے لئے پریشانی کا سبب بن جائے۔آسام اور پڑوسی ریاست میگھالیہ کے تازہ حالات سے وہ کچھ اور محتاط ہو جائیں گے ، ایسا اپوزیشن کے لوگ بھی مان رہے ہیں۔