بہار میں پھر این ڈی اےکی حکومت بنے گی ؟

تاثیر  11  دسمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بہاراسمبلی انتخابات 2025 کے دن جیسے جیسے قریب آتے جا رہے ہیں، ریاست کی سیاسی سرگرمی تیز ہوتی جا رہی ہے۔سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ڈھنگ سے چناوی تانے بانے کو اقتضائے حالات کے مطابق درست کرنے میں لگ گئی ہیں۔مرکزی وزیر گریراج سنگھ ، سینئر لیڈر اشونی چوبے اور بی جے پی کے دوسرے لیڈر اپنے اپنے بیانات سے یہ جتاتے رہے ہیں کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی کا ایکشن پلان ’’ہندوتو وادی ا ایجنڈے‘‘ پر ہی مبنی ہوگا۔این ڈی اے کی حلیف جماعت جے ڈی یو کے سامنے اپنی سماجوادی شبیہ کو بچائے رکھنے کا چیلنج ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب سینئر جے ڈی یو لیڈر اور مرکزی وزیر للن سنگھ کا پچھلے دنوں مسلمانوں کے حوالے سے دیا گیا بیان یا سیتامڑھی کے ایم پی دیویش چندر ٹھاکرکے ذریعہ لوک سبھا انتخابات کے بعد ووٹ دینے کے معاملے میں مسلمانوں پر کھلے عام لگائے کئے الزام کے بعد سے یہ قیاس آرائی شروع ہو گئی تھی کہ جے ڈی یو کے نظریہ میں بھی تبدیلی آنے لگی ہے۔ وقف بورڈ ترمیمی بل پر جے ڈی یو کا اب تک کا موقف بھی یہی اشارہ کرتا رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آنے والے وقت میںجے ڈی یو کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سماجوادی پارٹی آر جے ڈی بھی اپنی سیاسی لائن بدل سکتی ہے۔ آر جے ڈی پچھلے ضمنی انتخاب میں اپنی دو سیٹیں نہیں بچا سکا تھا۔ آر جے ڈی تراری سیٹ بچانے میں بھی اتحادی سی پی آئی (ایم ایل) کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوا۔ رام گڑھ میں آر جے ڈی کے ریاستی صدر جگدانند سنگھ اپنے بیٹے کو جتوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے، جب کہ بیلا گنج میں بھی پارٹی امیدوار کے لیے قومی صدر لالو پرساد یادو کی کوششیں کام نہیں آئیں۔ آر جے ڈی کا روایتی مسلم اوریادو (ایم وائی) تانا بانا اور تیجسوی یادو کا نیا چناوی فارمولہ’’ باپ‘‘ کارگر ثابت نہیں ہو سکا ۔ تب سے آر جے ڈی کی پریشانی کا بڑھنا فطری ہے۔ اب تو پارٹی کے اندر بھی ’’مائی باپ‘‘ فارمولہ کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ جگدانند سنگھ کو صدر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے، جو رام گڑھ میں اپنے بیٹے کو چناؤ نہیں جتوا سکے۔ آر جے ڈی کے سابق ایم ایل سی آزاد گاندھی کو اس بات سے حیرانی ہے کہ جگدانند سنگھ نے ابھی تک پارٹی کے ریاستی صدر کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا ہے۔فی الحال تیجسوی یادو پر تال میل کی سیاست سے بچنے کا دباؤ پڑ رہا ہے۔ ایسے میں یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ تیجسوی یادو سابق یوپی سی ایم اور سماج وادی پارٹی لیڈر اکھلیش یادو کے پی ڈی اے (پسماندہ، دلت، اقلیت) کی طرح ایک نیا سیاسی تانا بانا تیار کریں گے۔ لوک سبھا انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے اسی فارمولہ کی مدد سے یوپی میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ تیجسوی یادو کا سیاسی دھارا اب پسماندوں، دلتوں اور اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو سکتا ہے۔
آر جے ڈی کے سلسلے میں سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ وہ کوئی بھی چناوی تانا بانا تیار کرلے ، لیکن اس کی شش ہوگی کہ عوامی سطح پر اعلیٰ ذات کے ووٹرز سے اس کی دوری بنی رہے۔ نئے چناوی فارمولے کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ حالانکہ پچھلےلوک سبھا انتخابات کے وقت سے ہی انھوں نے اس فارمولے پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا۔ آ ر جے ڈی کے کل 23 امیدواروں میں سے صرف دو امیدوار ہی اعلیٰ ذات کے تھے۔ ان میں جگدانند سنگھ کے بیٹے سدھاکر سنگھ بھی تھے، جنہوں نے الیکشن جیتا تھا۔ دوسری طرف آر جے ڈی کے تئیں اعلیٰ ذات کے لوگوں میں ابھی بھی ناراضگی کم نہیں ہوئی ہے۔ خاص طور پر لالو یادو کے ’’بھورا بال ‘‘ صاف کرنے والا دور ابھی تک لوگوں کو یاد ہے۔ اس دور میں ناراضگی اتنی بڑھ گئی تھی کہ اعلیٰ ذات کے لوگوں نے آر جے ڈی سے دوری بنا لی تھی۔حالانکہ جگدانند سنگھ اور اننت سنگھ جیسے کچھ لیڈر ان دنوں بھی آر جے ڈی کے ساتھ کھڑے تھے اور جگدانند سنگھ تو ایک عرصہ سے پارٹی کے ریاستی صدر ہی ہیں۔ ویسے ابھی ذات پات کے تانے بانے کو لیکر ابھی پارٹی پر جس طرح کا اندرونی دباؤ ہے اور اس دباؤ میں اگر تیجسوی یا دو آکر پارٹی کے پسماندہ اور انتہائی پسماندہ لیڈروں کے مشورے کو مان لیتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے انہیں اعلیٰ ذات کے ووٹوں کا لالچ پوری طرح سے ترک کرنا پڑے گا۔ اور ایسی صورت میں پارٹی اپنے ریاستی صدر جگدانند سنگھ کا استعفیٰ لیتی ہے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ پارٹی نے ایک نئے چناوی تانے بانے پر تیزی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے اس کے بعد آر جے ڈی کے چناوی فریم ورک میں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ کے علاوہ صرف مسلمان اور دلت ہی رہ جائیں گے، جو اکھلیش یادو کے پی ڈی اے کا تصور کے عین مطابق ہوگا۔
چناوی تانا بانا کچھ بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ 2025 کے اسمبلی انتخابات نتیش بمقابلہ تیجسوی ہی ہوں گے۔ این ڈی اے نے اس لڑائی میں 225 سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا ہے۔ جبکہ عظیم اتحاد کی 6 جماعتیں تاحال اپنا کوئی ٹارگٹ طے نہیں کر سکی ہیں۔ ایسے میں عظیم اتحاد تیجسوی کی مدد سے این ڈی اے کو کیسے چیلنج کر پائے گا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اس سوال کے جواب میںجے ڈی یو کے قومی ترجمان راجیو رنجن کا کہنا ہے کہ جب نتیش کمار جیسا کمانڈر ہو تو جیت میں کوئی شک نہیں رہتا۔ عوام نے نتیش کمار کے چہرے پر بھر پور اعتماد کیا ہے۔ 225 کے ہدف کے بارے میں راجیو رنجن کا کہنا ہے کہ 2010 میں ہم نے بڑی جیت حاصل کی تھی اور حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ہم نے برتری حاصل کی تھی۔ تاہم، آر جے ڈی کے ترجمان ارون یادو کا دعویٰ ہے کہ 2025 کے تیجسوی یادو کی قیادت میں حکومت بنے گی۔ این ڈی اے کے 225 والے ہدف کے بارے ان کا کہنا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں بھی 400 کو پار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا ، لیکن ہوا کیا؟ جھارکھنڈ میں بھی 60 پلس کا دعویٰ کر رہے تھے ، رزلٹ سب کے سامنے ہے۔بہارمیں بھی ان کا دعویٰ پُھس ہونے والا ہے۔ ،مگر سیای مبصرین کا ماننا ہے کہ این ڈی اے اپنی اتحادی طاقت کی بدولت چناؤ جیتتی ہے۔اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو بہار میں ایک بار پھراین ڈی اے کی حکومت بنے گی۔