تاثیر 27 جنوری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
ملک کی راجدھانی دہلی میں اسمبلی انتخابات کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے سبھی بڑے لیڈر دہلی میں اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لیے پورے زوروشور سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں، لیکن ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس جس طرح سے الیکشن لڑ رہی ہے اسے دیکھ کر عام لوگ حیرت زدہ ہیں۔جہاں عام آدمی پارٹی کی جانب سے قومی کنوینر اروند کیجریوال، وزیر اعلیٰ آتشی، راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ، پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت سنگھ مان اور دوسرے لیڈر پارٹی امیدواروں کے لیے جگہ جگہ انتخابی جلسہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ، اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی سمیت کئی دوسرے لیڈروں کو انتخابی مہم کی کمان سونپ دی ہے۔وہیں دوسری جانب کانگریس کی طرف سے، اس کا کوئی بھی سرکردہ لیڈر انتخابی مہم میں نظر نہیں آ رہا ہے۔ راہل گاندھی نے دہلی میں کانگریس کے لیے سیلم پور میں انتخابی ریلی کی تھی، لیکن اس کے بعد وہ دوسری ریلی میں شرکت نہیں کر سکے۔ پارٹی نے بتایا تھا کہ ان کی طبیعت خراب ہے۔ اس کے بعد دہلی کانگریس کے صدر دیویندر یادو نے عوام کے نام راہل گاندھی کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ راہل گاندھی کی طبیعت خراب ہونے کے بعد یہ خبر آئی تھی کہ کانگریس یونٹ نے پرینکا گاندھی واڈرا سے راجدھانی میں پارٹی کے امیدواروں کے لیے مہم چلانے کی درخواست کی تھی، لیکن پرینکا نے ابھی تک انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا ہے۔
عوام میں یہ سوال گشت کر رہا ہے کہ ملکارجن کھرگے، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی واڈرا نے دہلی میں انتخابی مہم سے اتنی دوری کیوں بنا رکھی ہے؟ کیا کانگریس اپنے بڑے لیڈروں کو انتخابی مہم میں اس لیے نہیں اتار رہی ہے کہ شاید اسے معلوم ہے کہ دہلی میں اس کے پاس حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے؟ پچھلے دو انتخابات میں یہ لگاتار صفر پر آؤٹ ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے پارٹی کارکنوں کے جوش و خروش میں کافی کمی آئی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا کانگریس کو ڈر ہے کہ پارٹی کے بڑے لیڈروں کو انتخابی مہم میں اتارا جائے تو بھی اسے کچھ نہیں ملے گا۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ملکارجن کھرگے، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کی سرکاری رہائش گاہیں دہلی میں ہیں، لیکن یہاں انتخابی مہم سے ان کی غیر موجودگی یقیناً بڑے سوالات کو جنم دیتی ہے۔حالانکہ دہلی میں انتخابات کے اعلان سے پہلے کانگریس لیڈروں کا رویہ دیکھ کر یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس بار پارٹی پوری طاقت کے ساتھ دہلی الیکشن لڑے گی۔ خود پارٹی کے کئی لیڈروں نے کہا تھا کہ ملکارجن کھڑگے، پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی پارٹی امیدواروں کے لیے مہم چلاتے نظر آئیں گے۔ بی جے پی پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی نے عام آدمی پارٹی کے خلاف بھی سخت موقف ظاہر کیا تھا۔ یہ اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی نے اپنے بڑے لیڈروں سابق ایم پی سندیپ دکشت اور آل انڈیا مہیلا کانگریس صدر الکا لامبا کو عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال اور وزیر اعلیٰ آتشی کے خلاف الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اتارا ہے۔
دہلی کے عوام اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کانگریس نے لوک سبھا انتخابات میں’’آئین اور ریزرویشن دونوں خطرے میں ہے‘‘ کی بنیاد پر زبردست مہم چلائی تھی۔اس میں پارٹی کو اچھا رسپانس ملا تھا اور وہ لوک سبھا انتخابات 2019 میں 52 سیٹوں کے مقابلے 99 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ لیکن اس کے بعد اسے ہریانہ اور مہاراشٹر سے دو بڑے جھٹکے لگے۔ ہریانہ میں جیت تقریباً یقینی سمجھی جا رہی تھی ، لیکن وہاں کانگریس حکومت نہیں بنا سکی۔ مہاراشٹر میں اتحاد میں الیکشن لڑنے کے باوجود وہ صرف 16 سیٹیں جیت سکی۔ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کانگریس دہلی کے انتخابات کو کیا بے دلی کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ حالانکہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس بار دہلی کی انتخابی جنگ میں اگر کانگریس مسلم ووٹروں کی اکثریت والی سیٹوں پر مضبوطی سے الیکشن لڑتی ہے تو اس سے عام آدمی پارٹی کو نقصان ہو گا۔بی جے پی کو بھی شاید ایسی ہی امید تھی کہ کانگریس کم از کم ان سیٹوں پر پورے دم خم سے چناؤ لڑے جہاں عام آدمی پارٹی کی پوزیشن اچھی ہے۔ لیکن اب جب کہ انتخابات میں انتخابی مہم میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ پارٹی اس زور و شور سے الیکشن نہیں لڑ رہی، جس طرح اس نے چند ماہ قبل اپنے ارادوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ دہلی میں اسمبلی انتخابات کی مہم 3 فروری کو شام 5 بجے ختم ہو جائے گی۔ اس تناظر میں اب انتخابی مہم کے لئے صرف ایک ہفتہ کا وقت رہ گیا ہے۔ اس صورتحال میں بھی کانگریس کے تین بڑے لیڈروں یعنی پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی اور قومی جنرل سکریٹری و ایم پی پرینکا گاندھی واڈرا انتخابی مہم سے دوری بنائے ہوئے ہیں۔ہر چند کہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے الیکشن لڑا تھا، لیکن اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے شروع دنوں میں ہی کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ ممتا بنرجی کی ٹی ایم سی اور اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی جیسی ’’انڈیا‘‘ بلاک میں شامل جماعتوں نے بھی دہلی اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے بجائے عام آدمی پارٹی کی حمایت کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ظاہر ہے کانگریس کے اس اکیلے پن اور انتخابات کے تعلق سے اس کی سرد مہری کے حوالے سے عوامی طور پر بہت سارے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کا ایک باریک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کانگریس اپنی انتخابی حکمت عملی کے تحت ہی ایسا کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ یعنی کہیں کانگریس کے ذہن میںیہ بات ہے کہ مضبوطی کے ساتھ چناؤ لڑنے کا مطلب ہے بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد کرنا اور کانگریس کبھی نہیں چاہے گی کہ ایسا ہو۔