ٹھوس اور منصفانہ حل کی امید

تاثیر  19  جنوری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

وقف بورڈ ترمیمی بل۔ 2024 بہار کے حوالے سے ایک بار پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ بل کسی بھی طرح سے پارلیمنٹ سے پاس ہو جائے ۔ حالانکہ بل کو منظور کرانے کا جو جواز پیش کیا جا رہا ہے، وہ ملک کی مسلم اقلیتی آبادی کے ایک بڑے طبقے کو منظور نہیں ہے۔ جبکہ ایک خاص نظریہ کے حامل لوگ حکومت کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں مسلم اقلیتی آبادی کے لوگ بھی شامل ہیں۔دوسری جانب اپوزیشن بھی اس معاملے میں حکومت کے ساتھ نہیں ہے۔اس کو لیکر پارلیمنٹ میں بھی کئی بار ہنگامہ ہو چکا ہے۔ اس تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے ایک جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) تشکیل دی ہے۔ اسی جے پی سی کی ایک اہم میٹنگ ہفتہ (18جنوری) کو پٹنہ کے ہوٹل تاج میں ہوئی تھی۔وقف بورڈ ترمیمی بل۔2024 پر جے پی سی کمیٹی کی اس میٹنگ میںمختلف سیاسی جماعتوں اورتنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اپنے خیالات پیش کیں۔جو مرکزی حکومت کے مزاج کے لوگ تھے انھوں نے بل کی حمایت میں اپنی باتیں رکھیں اور جو وقف بورڈ ترمیمی بل۔2024کو وقف کے مزاج کے بر عکس اور خلاف شرع سمجھتے ہیں، انھوں نے بل کے خلاف مدلل انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس دوران کمیٹی کے ارکان اور فریقین کے درمیان تھوڑی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ عقیدے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ وقف ایکٹ، 1995 کی دفعہ 40 کو ہٹانے اور غیر مسلموں اور خواتین کو وقف کمیٹی میں جگہ دینے کا مطالبہ بھی پیش کیا گیا۔ میٹنگ میں جن لوگوںنے اپنے خیالات پیش کئے،ان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے،شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین، سنی وقف بورڈ کے چیئرمین، اے آئی ایم آئی ایم کے ریاستی صدر کے علاوہ سول سوسائٹی کے لوگ اور ریٹائرڈ بھی شامل تھے۔ بہار کی اپوزیشن پارٹی راشٹریہ جنتا دل نے بھی میٹنگ میں اپنا نمائندہ بھیجا تھا۔ آر جے ڈی نے بل کی پر زور مخالفت کی ۔ کانگریس ایم پی محمد جاوید، اے آئی ایم آئی ایم ایم ایل اے اختر الایمان اور دوسرے کئی شرکاء نے بل کے نقائص کی وضاحت کرتے ہوئے مدلل انداز میں اپنی باتیں رکھیں۔ ریاست کی بر سراقتدار جماعت جے ڈی یو کے ذریعہ میٹنگ سے دوری بنا لئے جانے کا چرچا بھی خوب ہو رہا ہے۔ ناقدین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ جے ڈی یو اب بی جے پی میں غیر معلنہ طور پر ضم ہو گیا صرف رسمیات باقی رہ گئی ہیں۔
میٹنگ کے سلسلے میں متعدد سیاسی رہنماؤں کی رائیں بھی سامنے آئی ہیں۔ کانگریس ایم پی محمد جاوید کا کہنا ہے کہ ہم (جے پی سی) نے ابتدائی طور پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگ کرنے کے لیے پانچ مقامات کا دورہ کیا ہے۔ یہ میٹنگ سوموارکو کولکتہ اور منگل کو لکھنؤ میں ہوگی۔ نچلی سطح پر لوگوں سے تجاویز لینا ضروری ہے۔ سب کی رائے سنی جا رہی ہے۔ تمام لوگوں کو سننے کے بعد ہی کمیٹی اپنی رپورٹ فائنل کرے گی۔کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور جے پی سی کے رکن ناصر حسین نے کہا کہ امید ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ حقیقت پر مبنی ہوگی۔ اجلاس میں حکمران جماعت اور اپوزیشن کے لوگوں نے اپنی اپنی رائے دی ہے۔ رپورٹ میں تمام لوگوں کی آراء کا خیال رکھا جائے گا۔ اے آئی ایم آئی ایم کے ریاستی صدر اخترالایمان بل کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے وقف ترمیمی بل 2024 سے متعلق اپنے تحفظات وفد کے سامنے پیش کیے ہیں۔میرا ماننا ہے کہ یہ بل مسلم کمیونٹی یا ان کی جائیدادوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس بل کا مقصد وقف املاک کو سرکاری کنٹرول میں لانا ہے، جس سے ممکنہ طور پر ملک بھر میں شہری بدامنی پھیل سکتی ہے۔ اس بل کے ذریعے وقف شدہ املاک میں حکومت کی براہ راست مداخلت ہوگی۔ وقف کی آمدنی کی نگرانی بھی مرکزی حکومت خود کرے گی۔میٹنگ میں شریک بی جے پی کے نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ وقف بورڈ ترمیمی بل۔2024 وقف املاک کے تحفظ کے حق میں ہے۔ مناسب کنٹرول نہیں ہونے کی وجہ سے بہار میں ہی بہت سی وقف املاک بلڈروں کے ہاتھ فروحت کی جا چکی ہیں۔ بی جے پی ایم پی اور جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال وقف املاک کی مبینہ لوٹ پاٹ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ہم سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ وقف املاک کو تجاوزات سے بچانے کے لیے مسلسل تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، اس کے خدشات دور کرنے کے بجائے، اس کے خلاف 46 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ہمار ی کمیٹی ہر چیز پر غور کرے گی۔ ہم 31 جنوری سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں اپنی رپورٹ پیش کریںگے۔
بہر حال ماہرین کا ماننا ہے کہ وقف ترمیمی بل۔2024 کے حوالے سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی کے لوگوں اور اسٹیک ہولڈرزسے جے پی سی ان کا رد عمل جاننے کی کوشش کر رہی ہے یہ ملک میں مضبوط جمہوریت کی ایک اہم مثال ہے۔ سب کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق ہے۔ اس موضوع پر کھل کر بحث قومی مفاد کے لیے ضروری ہے۔سی ایم نتیش کمار اور ان کی پارٹی جے ڈی یو کی خاموشی پر سوال اٹھنا فطری ہے، کیونکہ عوام اپنے نمائندوں سے شفافیت اور وضاحت کی توقع رکھتے ہیں۔ وقف املاک جیسے حساس معاملے پر اپنے موقف کے اظہار سے گریز ان کے سیاسی رویہ پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہر سیاسی جماعت چاہے وہ اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں، عوامی مفادات کو ترجیح دے اور ایسے اہم موضوعات پر عوامی سطح پر اپنی واضح رائے کا اظہار کرے۔ وقف املاک کے انتظام سے متعلق اس بل کا براہ راست اثر اقلیتی طبقے کی جائیداد اور حقوق پر پڑ رہا ہے۔ اس لیے تمام متعلقہ تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو مل کر اس مسئلے کے جامع اور منصفانہ حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس تنازعہ کو صرف سیاسی نظروں سے دیکھنے کے بجائے معاشرے اور برادری کی بہتری کے زاویے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا،امید کی جانی چاہئے کہ جے پی سی کی رپورٹ اور اس پر پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث سے ضرور کوئی ٹھوس اور منصفانہ حل نکلے گا۔
****