تاثیر 13 جنوری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
دہلی کی تین اہم سیاسی جماعتوں بی جے پی، کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان کچی آبادیوں کے ووٹروں کو اپنے ساتھ لانے کے لیے زبردست جنگ جاری ہے۔ کچی بستیوں میں رہنے والے ووٹروں کو عام آدمی پارٹی کا حامی سمجھا جاتا ہے ۔ پارٹی انہیں اس بار بھی اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنا چاہتی ہے۔ وہیں بی جے پی اس ووٹ بینک پر اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس بھی ان ووٹروں میں اپنی حمایت دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ پچھلے 10 سالوں میں کچی آبادی کے ووٹر کانگریس سے بھاگ کر عام آدمی پارٹی میں چلے گئے ہیں۔دہلی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق نئی دہلی اسمبلی حلقہ میں کچی آبادیوں میں کل 67 ہزار خاندان رہتے ہیں جبکہ مغربی دہلی میں ان کی تعداد 22 ہزار ہے۔ دہلی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے آتے ہیں اور مختلف ذات برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ مفت بجلی اور عام آدمی پارٹی کی حکومت کے ذریعہ چلائے جانے والے محلہ کلینک جیسی اسکیموں کا فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ دہلی کی کچی بستیوں میں رہنے والے تقریباً 3 لاکھ خاندان، جو کل ووٹروں کا تقریباً 10 فیصد ہیں، انتخابی نتائج پر نمایاں اثر ڈال سکتے ہیں۔ دہلی کے مختلف علاقوں میں کچی بستیوں میں رہنے والے لوگ بنیادی طور پر یوپی، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے آئے ہوئے لوگ ہیں اور ان میں سے زیادہ تر عام آدمی پارٹی کی فلاحی اسکیموں سے متاثر ہیں۔حالانکہ بی جے پی بھی ان ووٹروں کو اپنے حق میں لانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ ویسے جھگی جھونپڑی والے علاقوں کے ووٹرز یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی نے انھیں اپنی فلاحی اسکیموں سے جوڑنے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑی ہے۔اس بیچ سابق وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو یہ چیلنج کیا ہے کہ اگر وہ دہلی کے جھگی جھونپڑی والے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو مکان فراہم کرنے اور ان کے خلاف مقدمات واپس لینے کا حلفیہ وعدہ کرتے ہیں تو وہ الیکشن نہیں لڑیں گے۔ اروند کیجریوال کے اس چیلنج سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کسی بھی قیمت پر ترقی کے حاشئے پر زندگی گزارنے والے طبقے کو اپنے سے الگ نہیں ہونے دینا چاہتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا بھی یہ ماننا ہے کہ انتخابی نتائج حکومت مخالف لہر سے تھوڑا بہت تو ضرور متاثر ہونگے ، لیکن پارٹی کو امید ہے کہ غریبوں اور کم آمدنی والے لوگوں کے لئے جاری فلاحی اسکیمیں اپنا اثر ضرور دکھا ئیں گی۔ دوسری جانب بی جے پی بھی جھگی جھونپڑی والے علاقوں کے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے میں سرگرم ہے۔ پی ایم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جھگی جھونپڑی والے ووٹرز کے درمیان اپنی کئی نئی اسکیموں کو متعارف کرایا ہے۔،مثلاََ ’’ جہاں جھگی جھونپڑی، وہاں مکان‘‘ ” مہم، جس کے تحت متعلقہ آبادی کے لوگوں کے لیے نئے مکانات کا افتتاح کیا گیا ہے۔ بی جے پی کا منصوبہ ہے کہ و ہ جھگی جھونپڑی والے علاقوں میں رہنے والوں کے درمیان اپنی پوزیشن مضبوط کرے۔خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں اسے روایتی طور پر حمایت حاصل نہیں ہے۔قابل ذکر ہے کہ دہلی کی سیاست میں دیگر تمام طبقات کی طرح جھگی جھونپڑیوں میں رہنے والے ووٹروں کا ووٹ بھی فیصلہ کن اور اہم سمجھا جاتا ہے۔
واضح ہو کہ دہلی میں 675 جھگیاں اور 1700 کے آس جھگی جھوپڑیاں ہیں، جنہیں جے جے کلسٹرز یا غیر مجاز کالونیاں بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں تقریباً تین لاکھ خاندان رہتے ہیں اور یہ دہلی کے کل ووٹروں کا 10 فیصد ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی کی سیاست میں یہ ووٹر کتنے اہم ہیں۔بی جے پی نے کچی آبادیوں میں رہنے والے ووٹروں سے رابطہ بڑھانے کے لیے لیڈروں، کارکنوں اور توسیعی کارکنوں کو تعینات کیا ہے۔ یہ تمام لوگ بوتھ لیول پر جا کر کچی آبادیوں سے بات کر رہے ہیں۔پارٹی کے ریاستی جنرل سکریٹری اور دہلی میں بی جے پی کی کچی آبادی کی توسیع مہم کے انچارج وشنو متل کا کہنا ہے کچی بستیوں میں رہنے والے لوگ مرکزی حکومت کی اسکیموں سے واقف نہیں ہیں۔ہم انھیں بتانے کا کام کر رہے ہیں۔ کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگ مفت سہولیات کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں لیکن، ان میں سے چند ہی کو فائدہ مل رہا ہے۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر یہ مانتے ہیں کہ پارٹی کچی بستیوں میں رہنے والے ووٹروں سے رابطہ قائم کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے، حالانکہ پارٹی لیڈر ان تک پہنچ رہے ہیں اور ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پارٹی لیڈر تسلیم کرتے ہیں کہ کچی آبادی کے ووٹروں کا ایک بڑا حصہ اب بھی عام آدمی پارٹی کی حمایت کرتا ہے، حالانکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر کچی آبادی کے ووٹروں کے 10فیصد ووٹ بھی بدل جاتے ہیں، تو بی جے پی کو اس کا بہت فائدہ ہوگا۔ ماہرین کا ماننا ہےکہ دہلی کی کچی آبادیوں میں تقریباً 15 لاکھ ووٹر زہیں اور ان میں سے 9 سے 10 لاکھ لوگ اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ ان میں سے 7 لاکھ عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جبکہ2 لاکھ ووٹ بی جے پی اور باقی ووٹ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کو جاتے ہیں۔بی جے پی یہ مانتی ہے اگر ہمارے حق میں اس طبقے کے 4 سے 5 لاکھ ووٹ آتے ہیں تو یہ گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔مگر یہ گیم چنجر ووٹ اس بار کدھر جائیں گے، ابھی کسی کو پتہ نہیں ہے۔