تاثیر 18 مارچ ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
کولکتہ، ١٨/ مارچ (محمد نعیم) ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے بشیر ہاٹ عدالت میں ایک جج کو ہراساں کرنے کے الزام میں چھ وکلاء کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ اب عدالت نے ان وکلاء کو منگل، 18 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
پیر کے روز جسٹس دیبانشو بساک اور جسٹس سمیتا داس ڈے کی بینچ میں اس معاملے کی سماعت ہوئی، جہاں جسٹس دیبانشو بساک نے سخت رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ عدالت میں “سیز ورک” ہوتے ہی کام بند کیوں کر دیا جاتا ہے؟ اور ریاست کسی ایک اے پی پی (اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹر) پر کیوں خرچ کرے؟
جسٹس بساک نے نشاندہی کی کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ان چھ وکلاء پر اس طرح کے الزامات لگے ہوں۔ 2012 میں بھی عدالت میں کام بند کرنے کے معاملے پر ان کے خلاف فوجداری مقدمہ درج ہوا تھا۔ حالانکہ، ملزمان نے اپنے حلف نامے میں خود کو “اچھی فیملی” سے تعلق رکھنے والا بتایا ہے۔
سماعت کے دوران عدالت میں ایک ٹی وی چینل پر ویڈیو چلائی گئی، جس میں دو وکلاء، جن میں سے ایک بار کے سیکرٹری ہیں، ججوں کے خلاف بیان دیتے نظر آئے۔ اس پر عدالت نے ان دونوں وکلاء کو حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔
بشیر ہاٹ عدالت کے اے پی پی نے الزام لگایا کہ انہیں سیز ورک کے دوران روکا گیا تھا۔ اس پر جسٹس بساک نے کہا کہ انہیں بتانا ہوگا کہ کون کون انہیں روک رہا تھا۔ اے پی پی کے وکیل جینت مترا نے دلیل دی کہ “جب عدالت میں سیز ورک ہو رہا ہو تو کیا کیا جائے؟ ہائی کورٹ میں بھی ایسا ہوتا ہے، اور چاہنے کے باوجود بھی جانا ممکن نہیں ہوتا۔”
جسٹس بساک نے کہا کہ ایک اے پی پی کو اپنے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے، اور ریاست کو ایسے اے پی پی پر پیسہ خرچ نہیں کرنا چاہیے جو خود اپنے اختیارات کا صحیح استعمال نہ کر سکے۔
ہائی کورٹ کے اس سخت رویے کے بعد، منگل کو ہونے والی سماعت کے حوالے سے وکلاء برادری میں کافی ہلچل پائی جا رہی ہے۔