تاثیر 15 اپریل ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
وزیراعظم نریندر مودی کا ہریانہ کے شہر ہسار کا حالیہ دورہ علاقائی ترقی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس موقع پر ہسار سے ایودھیا کے لیے نئی پرواز کا افتتاح اور مہاراجہ اگرسین ایئرپورٹ کے نئے ٹرمینل کی بنیادی ڈھانچہ کاری کا آغاز بلاشبہ موجودہ حکومت کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور عوامی سہولتوں کو بڑھانے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، وزیراعظم کی تقریر میں اٹھائے گئے کچھ متنازعہ نکات، خصوصاً وقف قانون اور مسلم نوجوانوں سے متعلق تبصروں نے ایک ایسی بحث کو جنم دیا ہے جو سماجی ہم آہنگی، سیاسی ذمہ داری اور قومی قیادت کے کردار پر اہم سوالات اٹھاتی ہے۔
ہسار سے ایودھیا کے لیے پرواز کا آغاز ایک علامتی اور عملی اقدام ہے جو نہ صرف مذہبی سیاحت کو فروغ دے گا بلکہ ہریانہ کے عوام کو ایودھیا کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت سے جوڑے گا۔ اس کے علاوہ، نئے ایئرپورٹ ٹرمینل کا افتتاح علاقائی رابطوں کو مضبوط کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ یہ منصوبے ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ذریعے معاشی خوشحالی اور عوامی سہولتوں کو ترجیح دے رہی ہے۔ ہسار جیسے شہروں میں اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف مقامی معیشت کو فروغ ملے گا بلکہ خطے کی قومی دھارے میں شمولیت بھی بڑھے گی۔ یہ وہ پہلو ہیں جن کی ہر سطح پر قدر کی جانی چاہیے، کیونکہ ترقی ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔تاہم، اس موقع سے وزیراعظم کی تقریر میں کچھ ایسے نکات اٹھائے گئے، جنہوں نے عوامی جذبات کو متاثر کیا۔ انہوں نے کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے وقف قانون کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا اور سماجی انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کیا۔ اس تناظر میں ان کا یہ تبصرہ کہ’’ اگر وقف املاک کا درست استعمال ہوتا تو مسلم نوجوانوں کوسائیکلوں کے پنکچر بناکر روزی کمانے کی ضرورت نہ پڑتی‘‘ پر لوگوں میں شدید اضطراب ہے۔ یہ بیان نہ صرف مسلم نوجوانوں کے معاشی حالات کا مذاق اڑانے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے بلکہ اسے ایک طبقے کی توہین کے طور پر بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ ملک میں بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے جو ہر طبقے کو متاثر کر رہا ہے، اور اس طرح کے تبصرے حساسیت کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ خاص طور پر، یہ بیان وزیراعظم کے ماضی کے تبصروں، جیسے کہ ’’پکوڑے بیچنا‘‘ روزگار کا ذریعہ ہے، سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے، جس سے یہ تاثر تقویت پاتا ہے کہ پسماندہ طبقات کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے انہیں ہلکے پھلکے انداز میں لیا جا رہا ہے۔
وقف املاک ،جو بنیادی طور پر خیراتی اور سماجی فلاح کے لیے وقف کی جاتی ہیں، اگر شفاف اور مؤثر طریقے سے استعمال ہوں تو بلا شبہہ وہ معاشرے کے پسماندہ طبقات کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ وزیراعظم کا مقصد شاید وقف املاک کے مبینہ غلط استعمال کی طرف توجہ دلانا تھا، لیکن ان کے الفاظ کا انتخاب اور انداز کچھ ایسا تھا کہ اس سے مسلم کمیونٹی کے ایک بڑے حصے میں مایوسی پھیل گئی ۔ سیاسی قائدین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بیانات میں احتیاط برتیں تاکہ کوئی طبقہ خود کو نظرانداز یا حقیر نہ سمجھے۔ بدقسمتی سے، اس موقع پر الفاظ کے چناؤ نے سماجی ہم آہنگی پر منفی اثر ڈالا، جو ایک ایسی چیز ہے جس سے ہر قیمت پر بچنا چاہئے۔یہ بات درست ہے کہ وقف بورڈز کے اختیارات اور ان کے استعمال سے متعلق سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔لیکن اعلیٰ سطح پر اس سلسلے کی گفت و شنید تعمیری اور مثبت انداز میں ہونی چاہئے۔چنانچہ قومی قائدین کو اپنے الفاظ کے اثرات پر گہری نظر رکھنی چاہئے۔ اگر مقصد سماجی انصاف اور ترقی کو فروغ دینا ہے تو اسے مکالمے اور باہمی احترام کے ذریعے حاصل کرنے پر زور دیا جا سکتا ہے۔
ہسار کا یہ دورہ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ایک مثبت پیغام دیتا ہے، لیکن اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ سماجی حساسیت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ترقی صرف عمارات، سڑکوں یا پروازوں تک محدود نہیں ہوتی؛ اس کا اصل مقصد تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر ان کے لیے منصفانہ مواقع پیدا کرنا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی قیادت اپنے پیغامات میں جامع رویہ اپنائے اور مکالمے کے ذریعے تمام طبقات کے تحفظات دور کرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ترقی سب کے لیے ہو، تو ہمیں ایسی زبان اور پالیسیوں کی ضرورت ہے جو اتحاد کو فروغ دیں۔ اسی راستے پر چل کر ہم ایک ایسی قوم کی تعمیر کر سکتے ہیں جو معاشی طور پر مضبوط اور سماجی طور پر ہم آہنگ ہو۔لہٰذا، ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ قومی قیادت کو سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کرنے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ تمام طبقات کو اعتماد میں لینے اور حساس مسائل پر احتیاط سے بات کرنے سے ہی ایک جامع اور منصفانہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ مکالمہ، احترام اور شفافیت اس مقصد کے بنیادی ستون ہیں۔
*******