عقیدت یا ردعمل کی سیاست؟

تاثیر 28 ستمبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بھارت میں حالیہ دنوں میں’’آئی لو محمد‘‘ نعرے نے ایک غیر ضروری تنازع کو جنم دیا ہے۔ اس کی ابتدا اترپردیش کے کان پور میں بارہ وفات کے موقع پر ایک بینر سے ہوئی، جس پر یہ جملہ درج تھا۔ یہ الفاظ عام طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے ہیں، جو ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ بدقسمتی سے، اس سادہ ایمانی جذبے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی، اور یہ معاملہ کئی شہروں تک پھیل گیا۔ اس تنازع نے نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالا بلکہ بھارت کے سیکولر تشخص پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
یہ نعرہ ایک حد تک ردعمل کے طور پر ابھرا یا  جان بوجھ کر ابھارا گیا۔ پچھلے چند برسوں سے’’جے شری رام‘‘  جیسے نعروں کو بعض اوقات عقیدت سے ہٹ کر طاقت کے مظاہرے یا دوسروں کو مرعوب کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، دھارمک یاترا کے دوران مساجد کے قریب اشتعال انگیز نعرے بازی اور بھگوا جھنڈوں کی تنصیب جیسے واقعات نے مسلم کمیونٹی میں عدم تحفظ کا احساس بڑھایا ہے۔ اس ماحول میں کچھ مسلمانوں نے اپنی مذہبی شناخت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو’’آئی لو محمد‘‘ کے نعرے کے ذریعے سامنے لانے کی کوشش کی۔ اگرچہ یہ جذبہ فطری ہے، لیکن اس کا عوامی جلوسوں میں زور پکڑنا ایک نئے تنازع کو جنم دے رہا ہے، جسے شرپسند عناصر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
اس تنازع کے نتیجے میں’’آئی لو مہادیو‘‘جیسے جوابی نعرے بھی سامنے آئے، جو سماج میں فاصلے اور بدگمانیاں بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک نعرے کے مقابلے میں دوسرا نعرہ کھڑا کرنا نہ صرف تقسیم کو ہوا دیتا ہے بلکہ بھارت کی رواداری اور ہم آہنگی کی روح کے منافی ہے۔ مذہبی نعرے، جو عقیدت کے لئے ہونے چاہئیں، سیاسی ہتھیار بن کر سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ رجحان بھارت کے کثیر المذاہب سماج کے لئے خطرناک ہے، کیونکہ یہ نفرت اور عدم اعتماد کی خلیج کو گہرا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، دہلی اور اترپردیش کے کچھ علاقوں میں ان نعروں کی وجہ سے مقامی سطح پر کشیدگی اور چھوٹے پیمانے پر تصادم کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جو سماجی تانے بانے کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔
اس صورتحال میں دو اہم ذمہ داریاں سامنے آتی ہیں۔ پہلی ذمہ داری مسلم کمیونٹی کی ہے کہ وہ اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے احتیاط برتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات صبر، رواداری اور اعلیٰ اخلاق پر مبنی ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں’’آئی لو محمد‘‘ کو امن اور محبت کے پیغام کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے، نہ کہ کسی ردعمل یا مقابلے کے طور پر۔ جلوسوں یا بینرز کے ذریعے ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ کی جائے ،جسے شرپسند نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کریں۔ مسلم رہنماؤں اور علماء کو بھی چاہیے کہ وہ کمیونٹی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے کی تلقین کریں، جو امن اور بھائی چارے کی عظیم مثال ہے۔
دوسری ذمہ داری حکومت اور سماجی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان عناصر پر سخت کارروائی کرے جو مذہبی نعروں کو کشیدگی پھیلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے تمام فریقین کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اگر کوئی بینر یا جلوس تنازع کا باعث بنتا ہے تو اس کا حل قانون کے دائرے میں تلاش کیا جائے، نہ کہ جوابی نعروں یا تشدد کے ذریعے۔ میڈیا کو بھی ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے نفرت کے بجائے ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے۔ سول سوسائٹی اور بین المذاہب مکالمے کے پلیٹ فارمز کو مضبوط کیا جائے تاکہ مختلف کمیونٹیز کے درمیان اعتماد بحال ہو۔
بلا شبہہ،’’آئی لو محمد‘‘ کوئی سیاسی ہتھیار نہیں، بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دل کی پکار ہے۔ اسے ردعمل کی سیاست کا آلہ بنانا اس کی روح کو مجروح اور بھارت کی کثرت فی الوحدت کی روایت کو کمزور کرتا ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے: ’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘ (سورہ الحجرات 49:13)۔ اس اصول کی روشنی میں ہر کمیونٹی کو ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا چاہیے۔ آئیے، عقیدت کے ان نعروں کو نفرت کی آگ بھڑکانے کے بجائے محبت، امن اور اتحاد کا پل بنائیں۔ بھارت کی ترقی اسی میں ہے کہ ہم اپنی رنگا رنگی شناخت کو نفرت کی بجائے محبت سے سینچیں، تاکہ یہ ملک دوبارہ دنیا کے سامنے رواداری اور ہم آہنگی کی مثال بن سکے۔
***************