بھارتی فارما کی عالمی طاقت کا امتحان

تاثیر 26 ستمبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ اعلان نے عالمی تجارت میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی ہے۔اس اعلان کے مطابق یکم اکتوبر، 2025 سے، غیر ملکی برانڈڈ ادویات پر 100 فیصد ٹیرف عائد ہوگا، جبکہ ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں پر 25 فیصد اور کچن و باتھ روم کیبنٹس پر ٹیرف کا تناسب 50 فیصد ہوگا۔ ٹرمپ کی یہ ’’امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسی امریکی مینوفیکچرنگ کو تحفظ دینے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا ہدف بھارت ہے، جو امریکی مارکیٹ میں ادویات کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یہ محض ایک تجارتی فیصلہ نہیں ہے، بلکہ عالمی صحت اور معاشی توازن کی ایک نئی کشمکش کا آغاز ہے، جس میں بھارتی فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی لچک اور قوت کا امتحان ہونے والا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پالیسی امریکی صارفین کے لئے سستی ادویات کی دستیابی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ بھارت ہر سال تقریباً  12.7 ارب ڈالر کی ادویات امریکہ کو برآمد کرتا ہے، جن میں زیادہ تر جنرک ڈرگس ہوتی ہیں۔ یہ ادویات امریکی صحت کے نظام کی بنیاد ہیں، جن سے 2022 میں 219 ارب ڈالر کی بچت ہوئی تھی۔ اگرچہ نیا ٹیرف برانڈڈ ادویات پر عائد ہوگا، لیکن اس کا اثر یقینی طور پر جنرک ڈرگس کی سپلائی چین پر بھی پڑے گا۔ بھارتی کمپنیاں جیسے ڈاکٹر ریڈیز، لوپن اور سن فارما، جو برانڈڈ ادویات بھی برآمد کرتی ہیں، پہلے ہی کم منافع پر کام کر رہی ہیں۔ گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو (جی ٹی آر آئی) کے مطابق، یہ ٹیرف ان کمپنیوں کی آمدنی کے ایک تہائی حصے کو متاثر کر سکتا ہے۔ نتیجتاً، امریکی مارکیٹ میں ادویات کی قلت بڑھ سکتی ہے، جو پہلے ہی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ پالیسی ٹرمپ کے قومی سلامتی کے دعووں کی پول کھول سکتی ہے، کیونکہ امریکی شہریوں کی صحت کو یقینی طور پر اس سے نقصان ہوگا۔
تاہم، یہ چیلنج بھارت کے لیے ایک سنہری موقع بھی ہے۔ بھارتی فارما انڈسٹری، جو’’عالمی فارمیسی ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر ترقی پذیر ممالک کو سستی ادویات فراہم کرتی ہے۔ یہ بھارت کی صنعتی برآمد کا سب سے بڑا شعبہ ہے، جو لاکھوں روزگار اور تکنیکی ترقی کا وسیلہ ہے۔ اگرچہ ٹرمپ کا ٹیرف آئرلینڈ جیسے ممالک کو بھی نشانہ بناتا ہے، جو کم کارپوریٹ ٹیکس کی وجہ سے امریکی کمپنیوں کے پلانٹس کی میزبانی کرتا ہے، لیکن بھارت کی جنرک ادویات کی امریکی مارکیٹ میں 50 فیصد گرفت اسے منفرد برتری دیتی ہے۔ 50 فیصد ٹیرف کے باوجود بھارتی کمپنیاں پہلے سے اس صورتحال کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ اب وہ یورپ، افریقہ اور ایشیا کی ابھرتی ہوئی مارکیٹس کی طرف تیزی سے بڑھنے کی پوزیشن میں ہیں، جہاں سستی ادویات کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مزید برآں، بھارت نئی ٹیکنالوجیز اور مقامی پیداواری صلاحیت بڑھا کر اس مانگ کو پورا کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کی تشویش کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ غیر ملکی درآمدات سے امریکی ملازمتیں خطرے میں ہیں، اور ہیوی ٹرکوں یا کیبنٹس پر ٹیرف سے پیٹر بلٹ اور کین ورتھ جیسے امریکی مینوفیکچررز کو تحفظ ملے گا۔ تاہم، بھارت کا ان شعبوں میں حصہ کم ہے؛ اصل دھچکا فارما سیکٹر پر پڑے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ ٹیرف عالمی تجارت کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے، جو عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے اصولوں سے متصادم ہو سکتا ہے۔ بھارت کو خاموشی سے برداشت کرنے کے بجائے، چین کی طرح، جس نے اسے’’ امریکی دھمکی‘‘ قرار دیا ہے، سفارتی سطح پر مضبوط ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے۔ عالمی فورمز جیسے ڈبلیو ٹی او یا جی-20 میں بھارت اپنی پوزیشن واضح کر سکتا ہے، جبکہ گھریلو سطح پر جدت اور پیداواری صلاحیت بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ٹیرف بھارتی معیشت کے لئے ایک امتحان ضرور ہے، لیکن یہ عالمی قیادت کو مضبوط کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ امریکی صارفین کو سستی ادویات کی ضرورت ہے، اور بھارت اس ضرورت کو پورا کرنے والا سب سے قابل اعتماد ملک ہے۔ اگر ٹرمپ کی پالیسی امریکی صحت کے نظام کو نقصان پہنچاتی ہے، تو دوسری طرف اس سے بھارت کی ساکھ اور مارکیٹ مزید مضبوط ہوگی۔  چنانچہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے تاکہ ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کی بجائے ’’عالمی صحت فرسٹ‘‘ کا اصول غالب آئے۔ یقین ہے کہ بھارت اپنی معاشی لچک اور جدت پسندی کے ساتھ اس امتحان میں نہ صرف سرخرو ہوگا بلکہ عالمی صحت کے شعبے میں اپنی قیادت کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔
****************