سیاست کے بدلتے رنگ اور عوام کی امیدوں کا امتحان

تاثیر 3 اکتوبر ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بہار میں اسمبلی انتخابات کے بگل بجنے ہی والے ہیں۔ساتھ ہی ریاست کی سیاست ایک بار پھر ہلچل سے بھر گئی ہے۔ بھارتیہ انتخابی کمیشن نے ایس آئی آرکے تازہ اعداد و شمار جاری کر دیے ہیں۔ان کے مطابق اب ریاست میں 7.42 کروڑ رائے دہندگان ہیں۔ یہ اعداد و شمار اگرچہ جمہوریت کی وسعت کا پتہ دیتے ہیں، لیکن ان کی ٹائمنگ کو لے کر اپوزیشن نے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹ درستگی کے نام پر یہ عمل سیاسی فائدے کے لئے کیا گیا ہے، جب کہ کمیشن اسے محض آئینی ذمہ داری قرار دے رہا ہے۔
ریاستی سیاست پر نظر ڈالیں تو تصویر بے حد پیچیدہ نظر آتی ہے۔ 2020 کے انتخابات کے بعد این ڈی اے کی حکومت بنی لیکن 2022 میں نتیش کمار بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر مہاگٹھ بندھن کا حصہ بن گئے۔ پھر 2024 کی ابتدا میں وہ دوبارہ این ڈی اے میں شامل ہو گئے۔اس اتار چڑھاؤ میں بہار کی سیاست کا اصلی چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ عوام کے درمیان یہ سوال شدت سے گونج رہا ہے کہ آخر اس بدلتی سیاست میں ان کے مسائل یعنی بے روزگاری، تعلیم، مہاجرت اور بدعنو انی کے ایشوز کہاں کھو جاتے ہیں؟
ریاست کی کل 243 نشستوں پر دونوں بڑے اتحاد اپنی اپنی طاقت آزمانے کو تیار ہیں۔ این ڈی اے میں جے ڈی یو، بی جے پی، ایل جے پی (آر)، ہم (سیکولر) اور قومی لوک مورچہ شامل ہیں، جب کہ مہاگٹھ بندھن میں آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں موجود ہیں۔ دونوں اتحادوں کے اندر سیٹ بٹوارے پر کشمکش جاری ہے اور چھوٹی پارٹیاں ’ باوقار حصہ‘ مانگ رہی ہیں۔اس معاملے کادلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ نئی جماعتیں بھی میدان میں ہیں۔ پرشانت کشور کی پارٹی سبھی 243 سیٹوں پر چناؤ  لڑنے کا اعلان کر چکی ہے۔ وہ بے روزگاری اور تعلیم جیسے مسائل کو انتخابی ایجنڈا بنا رہے ہیں۔ اسی طرح لالو پرساد کے بڑے بیٹے تیج پرتاپ یادو نے اپنی نئی پارٹی بنا کر انتخابی منظر نامہ کو مزید رنگین کر دیا ہے۔ تاہم ان جماعتوں کی اصل حیثیت کا اندازہ انتخابی نتائج کے بعد ہی ہو سکے گا۔
اِدھراین ڈی اے اپنی کامیابی کے لئے ترقیاتی کاموں اور خواتین کی فلاحی اسکیموں کو بنیاد بنا رہا ہے، جب کہ مہاگٹھ بندھن بیروزگاری، پیپر لیک اور ایس آئی آر کے حوالے سے حکومت کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہیں بی جے پی اسے محض مایوسی کی سیاست بتا رہی ہے۔تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو بہار کے انتخاب ہمیشہ قومی سیاست پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔ 1952 سے اب تک 17 بار اسمبلی انتخابات ہو چکے ہیں۔ کبھی کانگریس کا دبدبہ رہا تو کبھی علاقائی جماعتوں نے اپنی جگہ بنائی۔ آج کے حالات میں سوال یہ ہے کہ 2025 کا انتخاب بہار کو کس سمت لے جائے گا؟ کیا عوام موقع پرست سیاست دانوں کو سبق سکھائیں گے یا پھر روایتی اتحاد ہی اقتدار پر قابض رہیں گے؟
اس انتخاب کی ایک اور اہم جہت نوجوان طبقے سے جڑی ہے۔ بہار کا بڑا حصہ نوجوان آبادی پر مشتمل ہے جو روزگار، بہتر تعلیم اور عزت دار زندگی کی تلاش میں یا تو مہاجرت پر مجبور ہے یا پھر مایوسی کا شکار۔ اگر کوئی بھی اتحاد یا نئی جماعت ان نوجوانوں کے مسائل کو صحیح معنوں میں اپنی پالیسی کا حصہ بنائے اور سنجیدگی کے ساتھ اس پر عمل کرے تو یہی نوجوان ان کے لئے ایک بڑی طاقت ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح خواتین ووٹرزکے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں خواتین نے ووٹنگ میں مردوں سے زیادہ جوش دکھایا ہے اور یہ طبقہ بھی انتخابی نتائج پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔
عوام کی اصل امید یہ ہے کہ اس بار انتخابی منشور صرف وعدوں تک محدود نہ رہے بلکہ روزگار، تعلیم اور بنیادی سہولیات پر عمل درآمد ہو۔ بہار کی سیاسی بساط جتنی رنگین اور پیچیدہ ہے، عوام کا فیصلہ اتنا ہی دلچسپ ثابت ہونے والا ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے اور امتحان بھی۔
**********