Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 2nd Jan.
اتر پردیش میں ان دنوں راہل گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا ‘‘ موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ راہل گاندھی کی یہ پیدل یاترا آج یعنی 3 جنوری کو غازی آباد کے لونی علاقہ سے ہوتے ہوئے اتر پردیش میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ اپنے اس تین روزہ یاترا کے ذریعے راہل گاندھی یوپی کی سیاست میں کانگریس کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کر نے والے ہیں۔ اسکے لئے انھوں نے اکھلیش یادو اور مایاوتی سے بھی اپنی یاترا میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔اس یاترا کے ذریعہ گاندھی خاندان کے درمیان 4 دہائیوں سے قائم دوریاں بھی کم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔آج سے 40 سال قبل مینکا گاندھی کسی بات پر ناراض ہوکر اپنے ننھے بیٹے ورون گاندھی کے ساتھ اندرا گاندھی کی رہائش گاہ کو چھوڑ دیا تھا۔اتنے دنوں کے بعد اب ورون گاندھی کے من کی بات سامنے آئی ہے۔ان کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں ورون گاندھی یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ’’ میں نہ تو کانگریس کے خلاف ہوں اور نہ ہی پنڈت نہرو کے۔ ملک کی سیاست ملک کو متحد کرنے کے لیے ہونی چاہیے۔ خانہ جنگی جیسے حالات پیدا کرنے کے لئے نہیں۔ آج جو لوگ صرف مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹ لے رہے ہیں، ہمیں ان سے روزگار، تعلیم اور صحت سے متعلق سوالات کرنے چاہئیں۔ ہمیں لوگوں کو دبانے والی سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں ایسی سیاست کرنی ہے ،جس سے عوام کی ترقی ہو۔‘‘
سیاست کے ماہرین ورون گاندھی کے مذکورہ بیان اور لہجے کو بی جے پی کے سیاسی مزاج سے الگ راہل گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔چنانچہ اب یہ سوال اٹھنا شروع ہو گیا ہے کہ کیا 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ورون گاندھی اور راہل گاندھی ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں گے؟ اس سلسلے میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم پی ورون گاندھی کا راستہ ٹھیک وہی ہے ، جس پر چلتے ہوئے فلم اسٹارشتروگھن سنہا 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے کانگریس میں چلے گئے تھے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ ورون گاندھی بھارتیہ جنتا پارٹی میں ہونے کے باوجود اپنی ہی حکومت کے خلاف حملہ آور ہیں۔ تمام اہم مسائل پر ورون گاندھی کے بیانات پارٹی لائن سے ہٹ کر آتے رہے ہیں۔ ایسے میں ان کے تازہ بیان کا وائرل ویڈیو ان دنوں سرخیوں میں ہے۔ اس کو دیکھنے اور سننے سے ایسا لگتا ہے کہ ورون گاندھی اب کوئی بڑا سیاسی فیصلہ لینے کے لئے مناسب موقع کے انتظار میں ہیں۔ درحقیقت، ورون گاندھی کو ماضی میں ’’مہنگائی‘‘، ’’بے روزگاری‘‘،’’ اگنی ویر یوجنا ‘‘ اور’’ کسان آندولن ‘‘ وغیرہ کے حوالے سے پارٹی لائن سے الگ ہٹ کر بیان دیتے ہوئے دیکھا جاتا رہا ہے ۔ اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت سے لے کر مرکز کی نریندر مودی حکومت تک ان کے نشانے پر رہی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یوپی انتخابات 2022 کے دوران پارٹی کی طرف سے انہیں ترجیح نہیں دی گئی تھی۔ موجودہ صرتحال سے یہی لگ رہا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ان کی پارٹی انھیں حاشئے پر ہی رکھنا چاہتی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے کسی سینئر لیڈر نے ورون گاندھی کے روّے کے خلاف ابھی تک کھل کر بیان نہیں دیا ہے۔
بلا شبہہ ورون گاندھی کا تازہ بیان بی جے پی کے نقطۂ نظر سے قابل گرفت ہے۔لہٰذا، سیاسی گلیارے میں اس کا موضوع بحث بننا فطری ہے۔ورون گاندھی اپنے ویڈیو میں یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ ’’بھائی کو بانٹو اور بھائی کو کاٹو والی سیاست ہم نہیں ہونے دیں گے۔ ‘‘ انہوں نے ملک کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کرکے مسلسل ہندو مسلم مسئلہ کو اٹھانے کے لئے میڈیا کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ورون گاندھی کے اس بیان کو بھی راہل گاندھی کے حالیہ بیانات سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ ’’بھارت جوڑو یاترا ‘‘کے دوران راہل گاندھی مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے حکومت اور میڈیا کو اکثر نشانہ بناتے رہے ہیں۔ وائرل ویڈیو میں ورون گاندھی یہ بھی کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ’’ میں نہ تو کانگریس کے خلاف ہوں اور نہ ہی پنڈت نہرو کے ۔ ہمارے ملک کی سیاست ملک کو متحد کرنے کے لئے ہونی چاہیے۔ ملک توڑنے کی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ ورون گاندھی کے تازہ بیان سے کئی سیاسی معنی نکالے جا رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ پارٹی میں پوچھ نہیں ہونے کی وجہ سے وہ ناراض ہیں۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اپنے روّے سے ہی انھیں یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں انھیں ٹکٹ نہیں مل سکتا ہے، اس لئے وہ بی جے پی کو خیرآباد کہکر کانگریس میں جانے کے لئے زمین تیار کر رہے ہیں۔
بہر حال حقیقت خواہ جو بھی ہو، لیکن یہ طے ہے کہ ورون گاندھی ، جو بی جے پی کے ٹکٹ پریوپی کی پیلی بھیت سیٹ سے اور ان کی ماں مینکا گاندھی سلطانپور سیٹ سے ایم پی ہیں، کے تازہ بیان نے یوپی کی سیاست میں تھوڑی ہلچل ضرور پیدا کر دی ہے اور یہ مانا جا رہا ہے جب تک ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ یوپی میں چلتی رہے گی یہ سیاسی ہلچل بر قرار رہے گی۔