Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 14th Jan.
قیصر محمو د عراقی
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ،آسمانی تحفہ اور ایک زندہ جا وید معجزہ ہے ۔یہ کتاب ہر ایک کے لئے ہے اور قیامت تک کے لئے ہے ، سر ا پا ہدایت ، رحمت اور بشارت ہے ۔ یہی وہ کتاب الہیٰ ہے جو یکساں طور پر سب کے لئے دستور حیات اور ہدایت کا مجموعہ ہے ۔ جو لوگ اس کتاب پر ایمان لا ئینگے اور اللہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرینگے ان کو یہ کتاب زندگی کے ہر ہر معا ملہ میں رہنمائی کا کام دے گی اور وہ رو ز قیامت اللہ کے انعام و اکرام کی بشارت سے نو ا زے جا ئینگے ۔ قرآن پاک علوم کا ایسا مخزن ہے جس میں علوم دینی و دنیو ی دونوں بیک وقت موجود ہیں ، ان تمام علوم کو یکجا کر کے اللہ تعالیٰ نے گو یا ایک پا کیزہ کو زہ میں دریائے رحمت اور سرِ چشمہ ہدایت اور سر ا پا بشارت کو بند کر دیا ہے ۔ اس کی آیات میں تفکر و تد بر کر نے والے کو علوم و معارف کا گنجینہ ملتا ہے ۔ جب انسان اپنے خالق کی مخلو قات اور اس کی بنائی اور سجائی ہو ئی کا ئنات کا بغور مطالعہ کر تا ہے تو اس کو وہ حیرت انگیز عجا ئبات نظر آتے ہیں جس کا مشاہدہ کر کے اس کی عقل حیران رہ جا تی ہے اور وہ اپنے پر ور دگار کے وجود کا قائل ہو جا تا ہے ۔ اس ترقی یا فتہ دور میں جبکہ سائنسی تحقیقات کی بھر ما ر ہے اور ہمیں ہر قدم پر سائنس کی ضرورت پڑتی ہے تو ایسے میں غروب آفتاب کے دلفریب منظر ، چاند کے ہا لہ کی خوبصورتی ،جگنو کی ٹھنڈی چمک اور چمیلی کی دل آا ویز مہک سے لطف اندوز ہو نے کے لئے سائنس کے اصول سے تھوڑی بہت واقفیت ہو نی چاہئے ۔ علوم سائنس کی بہت سی شا خیں ہیں جیسے علم نجوم ، علم کیمیا، علم طبیعات ، علم نبا تات اور علم حیوانات وغیرہ وغیرہ لیکن ان سب میں اس خالق حقیقی کی قدرت اور عجا ئبات کی جلوہ گری کی حیرت انگیز مثالیں علم حیوانات اور علم نبا تات میں سب سے زیادہ پائی جا تی ہیں ۔ آج کی دنیا جس کو اپنی ترقی اور سائنسی تحقیقات سے اور جدید تحقیقات پر نا ز اور ضرورت سے زیادہ اعتماد ہے ، وہ قرآن کریم کا صدقہ اور فیض ہے اور ہمارے مسلم سائنسدانوں کا عطیہ ہے ۔ مثال کے طور پر آج سے سوا چودہ سو سال قبل جب قرآن کریم کا نزوال نبی اُمیﷺ پر عرب کے اس جزیرہ میں ہو رہا تھا جو متمدن دنیا سے الگ تھلگ تھا اور وہاں کسی قسم کی کوئی ترقی نہ تھی اور وہ اس وقت کی سپر پا ور حکومتوں سے بہت پیچھے تھا ، سواریوں کے لئے اونٹ ، خچر اور گدھے استعمال کئے جا تے تھے ان کے علاوہ موجودہ دور کی سواریا نہ تھیں ۔ ایسے وقت میں اس چھوٹے سے ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کی ہو نے والی تمام ترقیات ، ایجادات ، انکشافات اور تحقیقا ت و تخلیقات کو بیا ن فرما کر پوری سائنس کو دریا بکو زہ کر دیا ہے ۔ لہذا اب تک کی جملہ ایجادات اور سائنسی تحقیقات اور دریا فتیں مثلاً مو ٹر ،ریل گاڑ ی ، ہوائی جہاز ، ایٹم بم ، میزائل اور دیگر آلات حرب اور وسائل نقل و حمل اس کے تحت آگئے اور بعد میں عقل انسانی کی رسائی سے جو بھی چیزیں منظر عام پر آئینگی وہ سب اسی کے دائرہ میں ہو نگی ۔ آخر انسان کو عقل و فہم اور ذہن و دماغ کس نے دیا ؟ علم سے کس نے نوازا ؟ سمند روں کی گہرائی اور گیرا ئی تک رسائی ، زمین کی کی تہوں کو چاک کر کے اس کے اسرار اور سوز کی معلومات اور ستاروں پر کمندیں ڈال کر نئی تحقیقات پیش کر نے کی صلا حیت و قدرت کس نے بخشی ؟ پھر ان تمام مرا حل سے گذر نے اور یہ ساری منزلیں طے کر نے کے دوران تحفظ کس نے عطا کیا ؟ سب کا ایک جواب ہے کہ اللہ نے ۔ پھر یہ ضعیف البیان انسان اس حقیقت کو فرا مو ش کر کے اس سے چشم پو شی کیوں کر تا ہے ؟
قرآن مجید ایک ایسا کلام ہے جس کے نا زل ہو تے ہی اپنے اسلوب سے پو ری دنیا کو چیلنج کیا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ کسی نے طبع آزما ئی کی جرأت نہیں کی ۔ قرآن کریم عہد ما ضی میں بھی رشد و ہدایت کا منبع رہا ہے ، موجودہ دور میں بھی ہے اور قیامت تک رہے گا ۔ انسانی زندگی کے ایک ایک شعبہ میں اس سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ آج علم جدید ترقی کے منازل تیزی سے طے کر رہا ہے ، نئے نئے انکشافات و مشاہدات ہمارے سا منے آرہے ہیں ، عالم فطرت کے وہ اسرار اور مو ز جن تک ذہن انسانی کی رسائی نہ تھی ، علم جدید اور سائنسی انکشافات کی بدولت الم نشرح ہو چکے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دور اول کے لو گوں کو قرآنی آیات کے معا نی و مفا ہیم اور مد لو لات کا علم نہ تھا ، یقینا تھا ، التبہ بعض کیفیات کا علم اور قرآ ن میں بیان کر دہ حقائق کی تطبیقا ت اور تاویل آیات کا علم مشاہدہ اور علم جدید سے قبل نہ تھا ، جسے دور حاضر میں سائنسی انکشافات اور وسائل کی ترقی و ایجادات نے اُجا گر کیا اور مستقبل میں اس سلسلہ میں مزید اضافہ ہو تا جا ئے گا ، ان کی خبر قرآن نے ہم کو دی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ تم یقینا اس کی حقیقت کو کچھ مدت کے بعد جا ن لو گے ‘‘ یعنی قرآن پاک نے جن چیزوں کو بیان کیا ہے ، جو وعدے و وعید ذکر کئے ہیں ان کی صداقت اور حقیقت بہت جلد تمہارے سامنے آجا ئے گی ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی نشانیاں زمین و آسمان کے کناروں میں بھی دکھلا ئینگے اور خود انسان کے اپنے نفسوں کے اندر بھی ،چنانچہ کا ئنات میں قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔ جمادات و حیوانات ، اشجار و انہار ، کو اکب و سیارات ، چاند و سورج ، موسم کے تغیرات ، با رش و با دل کی گرج ، بجلی کی کڑک و چمک وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طرح آیات النفس سے انسان کا وجود ، جن اخلاط و مواد سے مر کب ہے ، جسم انسانی بہت سار ی مشینوں کا مجموعہ ہے، ہر ایک مشین اپنے اندر کر شماتی کہانی سمو ئے ہو ئے ہے ، جن کی تفصیلات میڈیکل سائنس کا دلچسپ مو ضوع ہے ، ایک طویل اقتباس جو ہمارے موضوع سے بڑی مطابقت رکھتا ہے اور اس میں اس سلسلہ کی بڑی اہم اور قیمتی معلومات آگہی ہیں ، اسے نقل کر دینا بہت ضروری ہے ۔ قرآن کریم اور سائنس کے درمیان تعلق بنیادی طور پر حیرت خیز معلوم ہو تا ہے ۔ قرآن کا یہ مقصد بھی نہیں کہ عالم فطرت اور کا ئنات میں کار فرما قوانین کی تشریح کر ے کیونکہ اس کا اصل مقصد تو انسان کی سعادت اُخروی ہے لیکن چونکہ اس کا مخاطب انسان ہے جو اللہ کی بنائی ہو ئی اس کائنات میں رہتا ہے اور اپنے گرد و پیش مختلف اشیاء کا مشاہدہ کر تا ہے ، حرکتِ کائنات میں لگے بندھے قوانین و ضوابط کی کار فرمائی دیکھتا ہے ۔ زمین ، آسمان ، پہاڑ ، دریا و سمندر ، حیوانات و نبا تات ، رات دن کے اُلٹ پھیر، شمس و قمر کی گردش ، نیلگون آسمانوں پر با دلوں کی سیر ، چاندنی راتو ں میں چاند ستاروں کی جلوہ سامانی ، آتش فشاں وزلزلے کا قہر سب کچھ تو اس کے مشاہدے میں آتے ہیں ۔ ان چیزوں کے بارے میں جا ننے کا تجسس اس کے اندر پیدا ہو تا ہے ، کائنات میں بکھری اللہ کی قدرت بے یا ں الفاظ میں نہ عہد اول کے انسانوں کو اپنے فہم و ادراک کے مطابق اسے سمجھنے اور قبول کر نے میں کسی خلش و خلجان سے دو چار ہو نا پڑا اور نہ بعد میں آنے والوں کو اور عہد حاضر میں علمی ترقی اور سائنسی انکشافات کے بعد قرآن کے بیان کر دہ حقائق و نظریات اور معلومات میں کسی قسم کا نقص و تضا دیا ادنیٰ خلل کا احساس ہوا۔ سائنس کسی چیز کی خالق و موجد نہیں سائنس کا ئنات میں چھپے اسرار و موز کو افشاء کر نے کا کام کر تی ہے ،سائنسی نظریات قائم کیئے جا تے ہیں اور جس عہد و ما حول اور متواتر معلومات کی روشنی میں قائم کیئے جا تے ہیں بظاہر اس سے اختلاف کی گنجا ئش نہیں ہو تی ، لیکن وقت گذر نے کے ساتھ ساتھ جیسے علم ارتقا کے مدارج طے کر تا جا تا ہے اور نئے نئے انکشافات و مشاہد ے سامنے آتے ہیں تو پچھلے قائم کر دہ نظریات ٹو ٹتے جا تے ہیں ۔ یہ ایک معلوم و مشاہد حقیقت ہے لیکن قرآن کریم کا معاملہ بلکل الگ ہے ۔ اس نے جوحقائق بیان کئے ہیں ، آج چودہ سو سال گزر جا نے کے بعد اس کی صداقت میں کوئی فرق نہ آیا اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا جھول پیدا ہو ا کیونکہ یہ کلام کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ ذاتِ حی و قیوم کا کلام ہے جو نہ صرف یہ کہ خالق و کیفیات کا علیم و خبیر بھی ہیں ، اس کا علم ازل سے ابد تک ہر چیز کا احاطہ و ادراک کے ہو ئے ہے ، وہ ہر طرح کے زما ں و مکان اور حالات کی پا بندیوں سے پاک و بالا تر ہے ۔ قرآن پاک سائنس کی کتاب نہیں ہے ، یہ تو زندگی کا ہدایت نا مہ ہے ، لہذا قرآن سائنس کے فار مولے پیش نہیں کر تا اور نہ حیات و کائنات کے ارتقا ء کے مرا حل سے بحث کر تا ہے ، اس کے بجا ئے وحی الہیٰ صرف ان بنیادی اُمور پر روشنی ڈالتی ہے ، جن کا تعلق زندگی اور اس کے معا ملات سے ہے ، چنانچہ حیات و کا ئنات کی تخلیق و تشکیل اور تو سیع و ترقی کے متعلق نا زل ہو نے والی آیات قرآن کی مطلب و مقصد صرف یہ ہے کہ انسان اپنے ما حول کے حقائق کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لے اور اس سلسلہ میں اس کا ذہن صحیح طور پر کام کرے تاکہ دنیا میں انسان کا کر دار درست رہے اور راہ راست پر چلتے ہو ئے منزلِ مقصود کی طرف بڑھے ۔
یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ سائنس قرآن کے بغیر محرومی اور جہالت و گمراہی کے سوا کچھ نہیں ۔ اس لئے سائنسٹ کو قرآن کے قریب لا نے اور ان نشانیوں کو روشنا س کر ا نے کی ضرورت ہے جو اس الحا می صحیفہ میں موجود ہیں تاکہ وہ علمی نشے میں چور ہو کر راہ مستقیم سے بھٹک نہ جا ئے ۔ جیسا کہ الیکز نڈر کے ساتھ ہو ا کہ وہ جب سب سے پہلے خلائی سفر سے واپس آیا تو نادان ڈھٹائی سے بول اُٹھا ’’آسمان کا سفر کر آیا مگر خدا کہیں نہیں دیکھا ‘‘ وہ یہ بھول گیا کہ ایسا خطر ناک سفر اللہ کی حفا ظت ، نگرانی کے بغیر کیسے ممکن ہوا ۔ الغرض قرآن کریم سائنسی اصول و نظریات کی کتاب نہیں ہے اور نہ اس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ کائنات میں موجود سائنسی حقائق بیان کرے اور تد بیر کا ئنات میں کار فرما اصول و ضوابط کی گتھیا ں سلجھا ئے بلکہ وہ تو انسان کے لئے کا مل دستور حیات اور رسول کی رسالت پر کا مل حجت ہے ، اس کا اولین مقصد انسان کو اُخروی سعادت و کا میابی سے سر فراز کر نا ہے ، عقل کی رہنماء کر نا ہے اور اپنے حدود میں رہتے ہو ئے اللہ کی عطا کر دہ نعمتوں سے استفا دہ اور دعوت دینا ہے ۔
موبائل :6291697668