Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 18th March
تہران ،18مارچ: ستمبر کے وسط میں ایرانیوں میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد سے “عورت، زندگی، آزادی” کے عنوان سے مظاہرے جاری ہیں۔ احتجاج کی اس لہر کے دوران ایک رکن پارلیمنٹ نے بیان دے کر تنازع کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ رکن پارلیمان حسین جلالی نے خواتین پر زبردستی حجاب مسلط کرنے کا دفا ع کیا اور کہا کہ بے پردہ خواتین مردوں کو گھر والوں سے چوری کر رہی ہیں۔ بے پردگی سے خاندانی ڈھانچہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ہمیں یہ مسائل لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہوں گے۔ واضح رہے ایران میں چھ ماہ سے زیادہ عرصہ سے خواتین پر لازمی پردہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ویب سائٹ ’’ ایران انٹرنیشنل‘‘ نیٹ ورک کے مطابق حسین جلالی نے یہ بھی کہا ہے کہ جو ایرانی خواتین حجاب نہیں پہنتیں وہ صحت اور جنسی حفاظت کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اس بیان نے حسین جلالی کے خلاف مواصلاتی ویب سائٹس پر شدید تنقید شروع کرا دی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب ملک میں مہینوں سے احتجاجی مظاہرے شروع ہیں اور ان مظاہروں میں ’’ عورت، زندگی، آزادی‘‘ کانعرہ بلندکیا جارہا ہے۔ مظاہرین حکومت کو عورتوں پر مظالم ڈھانے اور ان کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کی پالیسیاں اپنانے پر تنقید کانشانہ بنا رہے ہیں۔خیال ر ہے مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے درست طور پر حجاب نہ پہننے پر گرفتار کیا تھا، مہسا امینی کی 16 ستمبر کو پولیس کی حراست میں ہی موت ہوگئی تھی جس کے بعد ملک بھر میں لوگوں نے مظاہرے شروع کردیے تھے۔ ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ حکومت کو اس قدر بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایرانی حکام نے ان مظاہروں کو تشدد کے ذریعہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہینگاو اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اندازہ لگایا ہے کہ ان مظاہروں کے دوران سینکڑوں افراد کو مار دیا گیا اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے ہیں جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ تاہم بہت سی نوجوان خواتین نے اب تک ہمت نہیں ہاری اور تہران کی کچھ سڑکوں اور میٹرو سٹیشنوں پر اب بھی بالواسطہ روزانہ “بغاوت” دیکھنے میں آ رہی ہے۔