Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 13 APRIL
اللہ تبارک وتعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم رمضان المبارک تمامتر تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے آخری عشرہ میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ بہت ہی مبارک عشرہ ہے۔ اسی عشرہ میں لیل القدر ہے ،جو اجر و ثواب میں ہزار راتوں سے بہتر اور افضل ہے ۔ اسی عشرہ میں قرآن مجید جیسی کتاب نازل ہوئی ہے۔ اسی عشرہ میں روزہ رکھنے والوں اور تراویح پڑھنے والوں کی مغفرت ہوتی ہے۔یہی عشرہ پورے مہینہ کا خلاصہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ کو خصوصی اہمیت دیتے اور بعض وہ اعمال ادا فرماتے، جنہیں اس مبارک مہینہ کے پہلےدوسرے عشرہ میں نہیں کرتے تھے ، جیسے : شب بیداری اور تقریباََ پوری رات قیام : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کیلئے اپنی کمر کس لیتے ، شب بیداری کرتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی بیدار رکھتے ۔ مگر اب اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ ہم نے خود کو بہت بدل لیا ہے ۔ ہمارا طریقہ اس اسوہ نبوی سے اس قدر مختلف ہو چکا ہے کہ ہم ابتدائی رمضان میں تو کافی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے تھے ، لیکن اس مبارک عشرہ تک آتےآتے ہماری ساری کوششیں سرد پڑ جاتی ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک عشرہ میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر کے آخری دور تک رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اہتمام کرتے تھے ۔ جس سال آپﷺ کی وفات ہوئی، اس سال آپ نے اس آخری عشرہ اور اس سے قبل کے یعنی درمیانی عشرہ کا بھی اعتکاف کیا تھا ۔روایت یہ بھی ہے کہ ایک سال کسی عذر کی بنا پر آپ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف نہ کرسکے تھے تو اس سال آپ ﷺ نے شوال میں دس دن کا اعتکاف فرمایا تھا ۔
اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے پوری طرح سے منقطع ہوکربس اللہ سے لو لگا کے اسکے درپہ ( یعنی کسی مسجد کے کونہ میں ) سمٹ جائے۔سب سے الگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت اور اسی کے ذکر و فکر میں مشغول رہے، لیکن آج اس سنت پر عمل بھی دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا ہے۔ شاید ہم رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے شب وروز کی اہمیت بھولتے جا رہے ہیں اور ہمیں اب یہ بھی خیال نہیں رہ جاتا ہے کہ بیس روز گزر جانے کے بعد ماہ رمضان المبارک بھی اپنی روانگی کا پیغام دے دیتا ہے۔ابھی ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں۔
ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ رمضان المبارک کے پہلے، دوسرے اور تیسرے عشرے میں نبی کریم ﷺ کے ذوقِ عبادت و ریاضت میں، محبوبیت کے مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھی ،کئی گنا اضافہ ہوجاتا تھا۔رسول اکرم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پہلے دونوں عشروں سے بھی زیادہ پرشوق، تازہ دم اور سرگرم عمل ہو جایا کرتے تھے۔ اس عشرے میں خوب ذوق و شوق سے عبادت و ریاضت، شب بیداری اور ذکرو فکر فرماتے اور آپ ﷺ کی عبادت کے اعمال و اشغال میں نمایاں اضافہ ہوجاتا تھا۔
رمضان المبارک کے اسی آخری عشرے میں لیلۃ القدر بھی آتی ہے۔ لیلۃ القدر یعنی ا یک عظیم و بے مثال رات ، جو فقط امت محمدیہ کو عطا کی گئی ہے۔ لیلۃ القدر کا معنی ہے قدر و منزلت والی رات۔ اس رات کی قدر ومنزلت کو اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں یوں بیان فرمایا ہے:’’بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرئیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔‘‘یہاں اس بات کا ذکر کرنا خالی از حکمت نہیں ہوگا کہ اس رات کو اس قدر فضیلت کیوں بخشی گئی؟ اور مؤمنین کو یہ رات کیوں عطا کی گئی؟نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارک میں اس کا جواب یہ ہے:’’رسول کریم ﷺ کو سابقہ امتوں کی عمروں پر آگاہ کیا گیا تو آپ ﷺ نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمروں کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرما دی جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔‘‘
اس آخری عشرے کی ایک خصوصی عبادت صدقہ فطر بھی ہے، جو ہر صاحبِ حیثیت مسلمان پر تقریباً دو سیر گندم یا اس کی قیمت کے حساب سے واجب ہے۔ اس کی ادائیگی نماز عید سے پہلے ہونی چاہئے تاکہ غربا و نادار افراد اپنی ضروریات خرید کر سب مسلمانوں کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہوسکیں’اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں شعوری طور پر رمضان المبارک کی رحمت بھری ساعتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کریم ہمیں اپنی رحمت، مغفرت اور دوزخ سے آزادی کے پروانے عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ ہم رمضان المبارک گزرنے کے بعد رمضان میں سیکھا ہوا تقویٰ تاحیات یاد رکھیں اور اس پر پابند رہیں۔ہماری زندگیوں میں تبدیلیاں آجائیں۔ ہمارے کردار، اخلاق اور معاملات سنور جائیں۔آمین ثم آمین یا رب العالمین !
*********************