!کیا اس انکاؤنٹر کی منصفانہ جانچ ہوگی ؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 18 APRIL

پچھلے دنوںاتر پردیش میں، پولس کے حفاظتی محاصرے میں سیاسی دہشت گردوں کی گولیوں کے شکار سابق ایم پی اور پانچ بار کے ایم ایل اے عتیق احمد کے بیٹے اسد اور شوٹر غلام محمد کو ایس ٹی ایف نے ایک انکاؤنٹر میں ہلاک کر دیا تھا۔ ملک کی موجودہ غلیظ سیاست نے اس انکاؤنٹر کے تجزیئے کو بھی دھرم اور مذہب کے خانوں میںتقسیم کر دیا۔ اس انکاؤنٹر کے بعد جہاں حکومت نے ایس ٹی ایف کے جوانوں کو مبارکباد دی، وہیں بعض انصاف پسند لوگوں کا کہنا ہے کہ انکاؤنٹر کی تحقیقات ہونی چاہیے۔تحقیقات ہوگی یا نہیں ، اس سلسلے میں حتمی طور پر ابھی کچھ کہنا بہت مشکل ہے ، لیکن ملک کے موجودہ سیاسی و سماجی ماحول میں اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ اگر تحقیقات ہوتی بھی ہے تو اس کا نتیجہ ڈھاک کے تین پات سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ملک میں جاری مسلمانوں کے حوصلے کو پست کرنے والی سیاست سے قطع نظر بھارت میں ہونے والے انکاؤنٹرز کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کئی طرح کے معاملات نظر کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مشہور فیصلے بھی آ چکے ہیں۔ اس سمت میں کئی اہم رہنما اصول بھی بنائے گئے۔ ان پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 20 مئی 2022 کو حیدرآباد انکاؤنٹر کیس میں ریاستی پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ذریعہ مقرر کردہ انکوائری کمیشن نے کہا تھا کہ پولیس کی کہانی من گھڑت ہے۔ پولیس اہلکاروں نے مل کر ملزم کو مارنے کی نیت سے فائرنگ کی۔ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ تمام 10 پولیس اہلکاروں پر قتل (مشترکہ نیت کے ساتھ قتل) کا مقدمہ چلایا جائے۔ ریٹائرڈ جج بی ایس سرپورکر کی سربراہی میں کمیشن نے رپورٹ میں کہا کہ پولیس نے یہ کہانی گھڑ لی کہ ملزمان نے پولس کی پستول چھین کران پر فائر کیا۔ پولس نے اپنے دفاع میںگولی چلائی۔
3 جولائی، 2009 کو غازی آباد کا ایک ایم بی اے طالب علم دہرادون میں ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا۔ معاملہ سی بی آئی کے پاس گیا اور کیس کو اتراکھنڈ سے دہلی منتقل کر دیا گیا۔ نچلی عدالت نے 17 پولیس اہلکاروں کو قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ پھر 10 کو ہائی کورٹ نے بری کر دیا اور 7 کو سزا سنائی گئی۔ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ 2 جولائی کو شالیمار گارڈن میں رہنے والے رنویر سنگھ ایک دوست کے ساتھ انٹرویو دینے دہرادون گئے تھے۔ اس کی پولیس اہلکار سے کسی بات پر جھگڑا ہوا اور اس کے بعد اسے قریبی جنگل میں لے جایا گیا اور پولیس نے انکاؤنٹر میں مار دیا۔ پولیس نے بدمعاش کا سامنا کرنے کا دعویٰ کیا اور پستول کی برآمدگی ظاہر کی۔ متوفی کے والد نے سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے دہلی کے مشہور سی پی شوٹ آؤٹ کیس میں اے سی پی ایس۔ ایس۔ راٹھی سمیت 10 پولیس اہلکاروں کو سزا سنائی گئی۔ سب کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ واقعہ 31 مارچ، 1997 کا ہے۔ سی پی میں دو تاجروں کو یوپی کے گینگسٹر یاسین سمجھ کر قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے کہا تھا کہ یہ غلط شناخت کا معاملہ ہے۔ اس نے تاجر کو جان بوجھ کر قتل نہیں کیا بلکہ غلطی سےیاسین کا پیچھا کرتے ہوئے یہ واقعہ پیش آیا۔ نچلی عدالت نے سبھی کو بری کر دیا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے 2009 میں تمام مجرموں کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔
اسی طرح ممبئی کے لکھن بھیا انکاؤنٹر کیس میں سیشن کورٹ نے 13 پولیس اہلکاروں سمیت 21 افراد کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ 11 ستمبر 2006 کو انہوں نے اندھیری کے علاقے میں لکھن بھیا (ایک مجرم) کو قتل کیا۔ لکھن کے بھائی نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے اسے اغوا کرنے کے بعد فرضی انکاؤنٹر کی کہانی گھڑی ہے۔ اس کے لیے پولیس کمشنر کو بھیجے گئے فیکس اور ٹیلی گرام کو ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ سیشن عدالت نے کیس میں 21 افراد کو مجرم قرار دیتے ہوئے 13 پولیس اہلکاروں اور دیگر کو عمر قیدکی سزا سنائی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی کے پیلی بھیت میں 11 سکھ نوجوانوں کو فرضی انکاؤنٹر میں مارنے کے الزام میں پولیس اہلکاروں کو مجرمانہ قتل کا مجرم قرار دیا جو کہ قتل کے مترادف ہے۔ اس معاملے میں عدالت نے 43 پولیس اہلکاروں کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ واقعہ 12 جولائی 1991 کا ہے۔ پولیس کے مطابق لڑکے دہشت گرد تھے ،لیکن سی بی آئی نے معاملے کی تحقیقات کی اور انکاؤنٹر کو ایک فرضی قرار دیا۔سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ سنجے پاریکھ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے 2014 کے فیصلے میں کہا تھا کہ اگر پولیس نے انکاؤنٹر کے دوران گولی چلائی یا کسی وجہ سے گولی چلانی پڑی تو موت کی صورت میں اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ سی آر پی سی کی دفعہ 46 میں جب پولیس کسی کو گرفتار کرتی ہے اور اس وقت اگر ملزم پولیس فورس پر حملہ کرتا ہے تو پولیس کو جان بچانے کے لیے ہتھیار استعمال کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے ہتھیار اپنے دفاع میں استعمال کیا۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت ہی 19 سالہ اسد اور غلام محمد کو انکاؤنٹر میں مار ڈالنے والے پولس جو انوں کا بھجن کیرتن گانے میں مصروف ہے تو ایسے میں بھلا یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ اس انکاؤنٹر کی بھی منصفانہ جانچ ہوگی اور قصورواروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ؟!