TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN 4 MAY
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ مدرسے دین کا قلعہ ہیں۔یہاں ایسے افراد تیار کیے جاتے ہیں جو دین کی حفاظت کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ ان ہی کی ذات سے دین محفوظ رہتا ہے اور ملت کے عام افراد تک پہنچایا جاتا ہے۔لیکن جب ہوش سنبھالا اورصحیح غلط کی ترازو پر تول کر چیزوں کو دیکھنے کی تمیز پیدا ہوئی تو منظر کچھ دوسرا نظر آیا۔پھر اللہ نے دین کو پڑھنے ، سمجھنے اوردین کی خدمت کرنے کا موقع عنایت فرمایاتب تو معاملہ بالکل ہی بدلا ہوا دکھائی دیا۔اور پھریہ لکھنے پر مجبور ہونا پڑا کہ’’مدرسے کبھی دین کا قلعہ تھے مگر اب مدرسے دین کا مزارہیں۔‘‘
علم دین کے تعلق سے قرآن اور احادیث کے مطالعے نے ایک دوسرا ہی منظرنامہ نگاہوں کے سامنے پیش کیا۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ (غیر مسلم جیسی زندگی گزارنے سے) پرہیز کرتے۔(توبہ:آیت ۱۲۲) معلوم ہوا کہ نبیﷺ کے دور حیات میں مسجد نبوی علم کا مرکز تھی اور نبیﷺ معلم تھے۔حکم دیا جارہا ہے کہ ہر قبیلے، بستی اور آبادی سے کچھ لوگوں کو یہاں آکر دین کا علم حاصل کرنا چاہئے تھا اور واپس جا کر اپنے علاقے کے لوگوں میں یہ علم بانٹنا تھا تاکہ وہ لوگ علم سے محروم رہ کر غیر مسلموں جیسی زندگی نہ گزاریں۔
پھر یہ حدیث بھی سامنے آئی کہ :’’علم حاصل کرنا ہر مسلم(مرد عورت) پر فرض ہے۔‘‘(بخاری)اور یہ کہ علم صرف تین ہی ہیں:’’ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اصل علم تین ہی ہیں آیات محکمات (قرآن کریم) سنت قائمہ(وہ سنتیں جو قائم چلی آ رہی ہیں )اور فریضہ عادلہ(اجماع و قیاس)۔ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ لا یعنی ہے ۔ ‘‘(ابو داؤد،ابن ماجہ) اور یہ بھی جانا کہ:حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو آدمی اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے بجائے دنیا کمانے کی غرض سے علم سیکھتا ہے اُسے قیامت کے دن جنت کی ہوا بھی نہیں لگے گی۔‘‘(احمد، ابوداؤد،ابن ماجہ)پھر علامہ اقبال کے یہ اشعار پڑھنے کو ملے:گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا-کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ-اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک-نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ-
پھر اس پر بھی غور کرنا شروع کیا کہ ملک میں ہزاروں مدرسے ہیں۔ ہر مدرسے سے ہر سال اگر پانچ عالم فاضل ڈگری لے کر نکلتے ہیں تو پوری ملت میں ہر شہر، گاؤں، بستی اور محلے کی مسجدوںمیں عالم و فاضل کو موجود ہونا چاہئے۔اور اگر یہ لوگ مسجد کے نمازیوں کو اور اپنے علاقے کے لوگوں کو دین کی باتیں بتا اور سکھا رہے ہیں توپھر ملت دین سے غافل اور محروم کیسے ہے ؟ اور یہ کہ مسجدوں میں جو امام صاحبان ہیںوہ سب کے سب جمعہ کا خطبہ دینے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں بلکہ جمعہ کے خطبے اور نماز کے لئے الگ سے امام و خطیب بلائے جاتے ہیں۔
وسیع مطالعے اور معلومات کے بعد پوری کہانی سمجھ میں آئی کہ جب خلافت کی جگہ بادشاہت قائم ہو گئی اور بادشاہ لوگ شریعت سے آزاد ہونے لگے تو اُس وقت کے علما نے اُن کوروکنا اور ٹوکنا شروع کیا۔بادشاہوں کو اس سے بہت گھبراہٹ ہوئی۔ تب بادشاہوں کے ایک وزیر نے جس کا نام نظام الدین طوسی تھا دینیات کا ایک نصاب بنایا اور مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔نصاب کا نام درس نظامیہ مشہور ہوا اور اُسی نصاب کو پڑھ کر مدرسے سے عالم فاضل پاس ہو کر نکلنے لگے۔وزیر نے بادشاہوں کو یقین دلایا کہ ہم نے ایسا کام کر دیا ہے کہ اب مدرسے سے عالم نہیں جاہل پاس ہو کر نکلیں گے او ر کوئی آپ کو ٹوکا ٹاکی نہیں کرے گا۔
پھر ملک میں عیسائی قوم کی حکومت ہوئی تو اُس نے انگریزی زبان سکھانے والے اسکول کھولے۔جو بھی اس اسکول سے امتحان پاس کرکے نکلتا اُسے سرکاری نوکری مل جاتی تھی۔ چنانچہ شہر میں رہنے والے ملت کے خوش حال اور تعلیم یافتہ طبقے نے اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں پڑھانا شروع کر دیا اور مدرسے ایسے ذہین طالب علموں سے محروم ہو گئے۔اب پسماندہ طبقے کے بچے مدرسوں میں پڑھنے لگے۔ایک تو مدرسے کا غلط دینی نصاب، پھر پسماندہ طبقے کے طالب علموں کی ذہنی کمزوری اور وہاں کے ظلم و زیادتی والے ماحول نے جو فوج تیار کی وہ نہ تو دین کے کام کی رہی نہ دنیا کے کام کی۔مدرسے کا کوئی بھی عالم فاضل دنیا کے کسی کام کا ہوتا ہی نہیں ہے۔ اور وہ دین کی خدمت کرنے کا کوئی جذبہ اور ارادہ رکھتا ہی نہیں ہے۔وہ چاہتا ہے کہ دنیا داروں کی طرح وہ بھی آرام و آسائش اور عیش و عشرت والی زندگی گزارے۔ زخم پر نمک چھڑکنے کا کام مسلمانوں کے درمیان تیزی سے بڑھتی فرقہ پرستی نے کیا۔اب مدرسوں کے فارغین دین و شریعت کے عالم و فاضل نہیں رہے بلکہ الگ الگ پہلوانوں کے اکھاڑے کے نام سے جانے والے پہلوان بن گئے اور آپس میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کر کے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی فکر میں لگ گئے۔اب ان میں کوئی بریلوی ہے، کوئی دیو بندی ہے، کوئی اہل حدیث ہے، کوئی سلفی ہے، کوئی تبلیغی ہے، کوئی خانقاہی ہے۔مسلم کی تلاش کیجئے گا تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔اب ان کا کام دین کی دعوت دینا اور ملت کو دین کی تعلیم دینا نہیں ہے۔ بلکہ یہ لوگ جس محفل میںجس اسٹیج پر آتے ہیں اپنے مخالف فرقے کو لعنت ملامت کرنا ، اُس کو کافر مشرک منافق بنانا اور اُس کوگمراہ ثابت کر کے ملت کو اُن سے دور رہنے کی تلقین کرنا یہ ان کا مقصد اور مشغلہ بن گیا۔
اندازہ ہو اکہ مدرسے کی تعلیم تعمیری خدمت کی جگہ تخریبی کارروائی کر رہی ہے۔مدرسے کے فارغین میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیںـ
(1) ایک تو یہ کہ ہر درس گاہ سے فارغ ہونے والا جب اپنے موضوع کا گہرائی سے مطالعہ شروع کرتا ہے تب وہ اس شعبہ میںماہر بنتا ہے۔مدرسے کے فارغین فراغت کے بعد قرآن وحدیث، سیرت و تاریخ اوردینی علوم کا مطالعہ کرتے ہی نہیں ہیں۔خود جاہل ہوتے ہیں مگر کو ملت کے تمام اعلیٰ درجہ کے لوگوں کو جاہل سمجھتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنی جاہلانہ باتوں سے گمراہی پیداکرنے کے سوا کچھ کرتے ہی نہیں ہیں۔
(2) دوسرے یہ کہ مدرسے کی تعلیم کے دوران دین کی بنیاد پر اتحاد و یگانگت، یک جہتی ، خیر خواہی اورمرحمت و مواسات کی جگہ اپنے فرقے کی بیجا طرفداری کرنا اور دوسرے فرقے کی شدید مخالفت کرنا ہی ان کا مقصد بن جاتا ہے جودین و ملت دونوں کے زہر ہلاہل کا کام کرتا ہے۔گویا یہ تعمیر کی جگہ تخریبی کارروائی کرتے رہتے ہیں۔
(3) تیسرے یہ کہ اپنی فرقہ پرستی اور تعصب کے سبب رواداری،مفاہمت،دوسروں کی قدر و منزلت کرنا،اکرام مسلم کا لحاظ رکھنا ہی بھول جاتے ہیں اورادب کی جگہ بے ادبی کرنے کے ماہر بن جاتے ہیں۔
(4) چوتھے یہ کہ فراغت کے بعد دین کی خدمت کرنے کی جگہ دنیا کیسے کمائی جائے اور دولت کے ذریعہ عیش و عشرت کی زندگی کیسے گزاری جائے یہی ان کی زندگی کا مقصد بن جاتاہے۔اس چکر میں کم علمی اور بے دینی والی ذہنیت کی وجہ سے یہ حرام و حلال اور گناہ و ثواب کی تمیز ہی کھو بیٹھتے ہیں اور عام دنیا داروں کی طرح زندگی گزارنے لگتے ہیں۔
(5) انہوں نے جو تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اُس کی بنیا د پر دنیا نہیں کمائی جا سکتی ہے۔چنانچہ یہ اسی تلاش میں رہتے ہیں کہ کسی مسجد میں امام یا مؤذن بن جائیں۔
(6) مدرسے کا ماحول ان میں خود داری، غیر ت مندی، جرأت و بیباکی اور حق گوئی کی صفت پیدا کرتا ہی نہیں۔ ہمیشہ بڑوں کے سامنے سر جھکا کراُن کی غلامی کرنا اوراُن کی ہر غلط بات کو تاویل کا جامہ پہنانا ان کا مزاج بن جاتا ہے اس لئے یہ ہر بڑے اور طاقت ور آدمی سے ڈرتے ہوئے اُس کی جی حضوری کے عادی بن جاتے ہیں۔حق کی حمایت میں اور ظلم کی مخالفت میں آواز بلند کرنا ان کو آتا ہی نہیں ہے۔ایسے لوگ امت کی رہبری اوررہنمائی کیا کریں گے ؟
(7) ان میں جو ذہین ہوتے ہیں وہ دنیا کمانے اور دولت مند بننے کے لئے اپنی ذہانت کا غلط استعمال کر کے لوگوں کو بے وقوف بنا کر اُن کو ٹھگنا شروع کر دیتے ہیں۔اور آخر کار حرام کمانے اورکھانے کے عادی بن جاتے ہیں۔یہ ایسی ایسی بے ایمانیاں کرتے ہیں کہ عام آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اتنی بے ایمانی تو وہ بھی نہیں کر سکتا ہے۔
(8) اس طرح ملت کے پسماندہ طبقہ کی نئی نسل کو دنیا میں کام کا آدمی بنانے کی جگہ اس کی زندگی کے بیش قیمتی سال برباد کرنے، اس کو نکما اور ناکارہ بنانے اورہدایت کی جگہ گمراہی کے رستے کا مسافر بنانے کا ادارہ اب مدرسے کا نظام بن چکا ہے ۔
(9) خود مدرسے کے جو معلم ہوتے ہیں اُن کی اخلاقی حالت بھی اچھی نہیں ہوتی ہے، جس کے سبب مدرسے کے طلبہ اخلاقی تربیت اور اخلاقی خوبیوں سے محروم رہتے ہیں۔اور یہ بے دینی کی سب سے بڑی علامت ہے۔مدرسے کی موجودہ تعلیم کا یہ نقص اور نقصان دیکھ کر اب یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ مدرسے کے ان فارغین کو ایسی پیشہ ورانہ تعلیم دی جائے جس سے یہ دنیا کما سکیں اوردنیا داروں جیسی زندگی گزار سکیں۔اس سوچ سے دو خرابی پیدا ہوگی۔اگر مدرسے بند نہیں کئے گئے یا وہاں کا نظام بدلا نہیں گیا جس کا امکان اب نظر نہیں آتا ہے تو آئندہ بھی نکمے اور ناکارے نوجوانوں کی کھیپ وہاں سے نکلتی اور ملت کے لے مسئلہ پیدا کرتی رہے گی۔دوسرے یہ کہ پیشہ ورانہ تعلیم پانے کے بعددنیا پرستی اور دولت کی ہوس کی آگ اور زیادہ تیز ہو جائے گی،تو پھر مدرسے میں تعلیم پانے کا فائدہ کیا ہوا۔
(10) وقت کی پکار یہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ نیک طبیعت، صالح ذہن و دماغ کے مالک ذہین لوگ دینیات یعنی قرآن و سنت،سیرت و تاریخ اور فقہی مسائل کے مطالعے کے لئے وقت نکالیں، عالمانہ لیاقت پیدا کریںاور ان روایتی عالم و فاضل لوگوںکی جگہ دین کی دعوت و اشاعت کی ذمہ داری اپنائیں۔اس کے سوا مسئلے کا کوئی دوسرا حل نظر نہیں آتا ہے۔ ان روایتی مولویوں سے بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔دینیات کے مطالعے کے لئے تفہیم القرآن اس وقت سب سے اچھی تفسیر ہے اُس کا مطالعہ کیا جائے۔زندگی کے عام معاملات کے لئے مستند اور معیاری حدیثوں کے بہت سے مجموعے بازارمیں موجود ہیں۔
حدیث کی بنیادی کتابوں کی جگہ ان مجموعوں کا مطالعہ سنت و حدیث کی ضروری اور معیاری معلومات فراہم کر ے گا۔محبت اور پیروی کرنے کی غرض سے سیرت رسولﷺ پر سیرت ابن ہشام کا مطالعہ کریں جس کا اردو ترجمہ بازار میں موجود ہے۔فقہی مسائل کو جاننے کے لے ’’فقہ السنہ‘‘ نامی کتاب اچھی خاصی معلومات اور مدد مہیا کرائے گی۔تاریخ اسلام میں مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی تاریخ اسلام مستند اور معتبر مانی گئی ہے اُس کا مطالعہ کریں۔دینیات کا یہ وہ جدیدنصاب ہے جو دورحاضر کی ضرورت کو پورا کرنے والے علما پیدا کرے گا۔قرآن کی عربی سیکھنا مشکل نہیں ہے ۔ شوق پیدا ہو تو قرآن کی آیات کا معنی سمجھنے کے لئے قرآن کی عربی سیکھنے کا اہتمام کریں۔اخلاقی خوبیوں پر سب سے زیادہ دھیان دیں اور ان خوبیوں کو پیدا کرنے کا مکمل اہتمام کریں۔کیونکہ معیاری اخلاق پیدا کئے بغیر نہ تو کوئی سچا مسلمان اور مومن بن سکتا ہے نہ کامل ایمان کا مالک بن سکتا ہے اورنہ خدا اور نبیﷺ کی نگاہ میں معتبر ہو سکتاہے۔
(11) میرے اس مضمون کو پڑھ کر روایتی مذہبی گروہ کی وہی حالت ہوگی جو اس وقت ملک کی حکمراں جماعت کی حزب مخالف کے سامنے ہو رہی ہے۔حزب مخالف حکمراں جماعت سے اُس کے کاموں کا حساب مانگ رہی ہے۔حکمراں جماعت کے پاس خاموشی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ عوام کا دھیان بھٹکانے کے لئے وہ ایسی باتوں کا ذکر کر رہی ہے جن کا تعلق پیش کئے جانے والے سوالوں سے نہیں ہے۔
بالکل اسی طرح موجودہ مذہبی طبقہ اس مشورے کے خلاف ایک زبردست طوفان کھڑا کر دے گا او ر ہو سکتا ہے کہ کفر اور گمراہی کا فتویٰ بھی جاری ہونے لگے جیسا کہ شروع میں علمائے حق کے تعلق سے ہوتا رہا ہے۔لیکن مرد مومن اور مرد مجاہد اللہ پر ایمان ، بھروسہ، امید اور اُس کی مدد کے سہارے حق کی آواز بلند کرتا ہے اور باطل پرستوں کی گیدڑ بھبھکیوں سے ہرگز نہیں ڈرتا۔
میں نے اپنی پوری زندگی میں یہ باتیں کہی ہیں لکھی ہیں اور بڑی عمر والوں کے ساتھ نئی نسل کے ذہن کو ہموار کیا ہے۔ان میں بہت سے ایسے نوجوان ہیں جو اگر ہمت کریں اور آگے قدم بڑھائیں تووقت کی اُس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ایسے تمام لوگوں کو قرآن کی ان آیتوں پر بھروسہ اور ایمان رکھنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:جو لوگ میرے راستے میں جد و جہد کریں گے، ہم اُن کی رہ نمائی کریں گے۔‘‘ (العنکبوت:۶۹)اور یہ کہ ’’ جو اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا، اللہ تعالیٰ اُس کے لئے مشکلوں سے نکلنا آسان بنا دے گا اوراُسے ایسے راستے سے (حلال) روزی دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔‘‘(طلاق:۲،۳)
ضضضضض
رابطہ:8298104514