TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –5 JUNE
ریاض5جون : سعودی عرب نے جولائی میں تیل پیداوار کو محدود کرنے سے متعلق اوپیک پلس معاہدے کے حصے کے طور پر اپنی پیداوار میں نمایاں کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیزبن سلمان نے اتوار کو ویانا میں اوپیک پلس کے اجلاس کے بعد کہا ہے کہ ’’ضرورت پڑنے پرمملکت کی جانب سے یومیہ پیداوار میں 10 لاکھ بیرل تک کٹوتی کو جولائی کے بعد بھی بڑھایا جا سکتا ہے اور یہ سعودی عرب کی جانب سے ایک لولی پاپ ہے‘‘۔سعودی عرب کی سربراہی میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اور روس کی قیادت میں اتحادیوں پر مشتمل اوپیک پلس کے وزراء اور اعلیٰ حکام نے ویانا میں اپنے اجلاس میں پیداواری اہداف سے متعلق سات گھنٹے تک بات چیت کی ہے اور انھوں نے طویل غوروخوض کے بعد پیداواری پالیسی سے متعلق ایک معاہدے سے اتفاق کیا ہے۔اس کے تحت گروپ نے 2024 سے مجموعی طور پر پیداواری اہداف کو مزید 14 لاکھ بیرل یومیہ تک کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تاہم، ان میں سے بہت سی کٹوتیاں حقیقی نہیں ہوں گی کیونکہ گروپ نے روس، نیجیریا اور انگولا کے اہداف کو کم کر دیا ہے تاکہ انھیں ان کی اصل موجودہ پیداوار کی سطح کے مطابق لایا جا سکے۔اس کے برعکس متحدہ عرب امارات کو پیداوار بڑھانے کی اجازت دی گئی ہے۔اوپیک پلس میں شامل ممالک دنیا کے خام تیل کا قریباً 40 فی صد پیدا کرتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اس گروپ کے پالیسی فیصلوں کا تیل کی قیمتوں پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔اوپیک پلس پہلے ہی گذشتہ سال طے شدہ 20 لاکھ بیرل کی یومیہ کٹوتی پر عمل پیرا ہے اور یہ مقدار عالمی طلب کا 2 فی صد بنتی ہے۔اپریل میں اس نے 16 لاکھ بیرل یومیہ کی مزید رضاکارانہ کٹوتی پر اتفاق کیا تھا۔یہ سمجھوتا مئی سے آغاز کے بعد 2023 کے اختتام تک نافذ العمل رہے گا۔سعودی عرب نے اتوار کے روز کہا ہے کہ وہ اپنے حصے کے مطابق 2024 تک پانچ لاکھ بیرل یومیہ کی رضاکارانہ کٹوتی میں توسیع کرے گا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا جولائی میں 10 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار میں کمی اول الذکرپانچ لاکھ بیرل کے علاوہ ہے یا اس کو جولائی میں کم کیے جانے والے دس لاکھ بیرل میں شامل کیا جائے گا۔اوپیک پلس کے اپریل میں اعلان کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں قریباً 9 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوا تھا ، لیکن پھر عالمی اقتصادی ترقی اور طلب کے بارے میں خدشات کے دباؤ میں قیمتیں تیزی سے واپس آگئی تھیں۔ جمعہ کو بین الاقوامی سودے بینچ مارک برینٹ 76 ڈالرفی بیرل پر بند ہوئے تھے۔مغربی ممالک نے اوپیک پر تیل کی قیمتوں میں ہیرا پھیری کرنے اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے عالمی معیشت کو کمزور کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔ مغرب نے یہ بھی الزام عاید کیا ہے کہ اوپیک یوکرین پر ماسکو کے حملے پر مغربی پابندیوں کے باوجود روس کا ساتھ دے رہا ہے۔اس کے جواب میں اوپیک کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران میں مغرب کی جانب سے دھڑا دھڑ کرنسی نوٹ چھاپنے کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوا ہے اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اہم برآمدی جنس کی قدر کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کریں۔گذشتہ ڈیڑھ ایک سال کے دوران میں چین اور بھارت ایسے ایشیائی ممالک نے روسی تیل کی برآمدات کا سب سے بڑا حصہ خریدا ہے اور روس پر مغربی پابندیوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔