TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –8 JUNE
بہار کی راجدھانی پٹنہ میں اپوزیشن جماعتوں کا عظیم الشان اجتماع ہونے جا رہا ہے۔ اس کا مقصد 2024 میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانا ہے۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اپوزیشن اتحاد مہم کی کمان سنبھالے ہوئےہیں۔ ان کی ہی پہل پر 23 جون کو پٹنہ میں اپوزیشن کے بڑے بڑے لوگ جمع ہونے والے ہیں۔ پہلے یہ اجلاس 12 جون کو ہونا تھا، لیکن پھر کانگریس کے اعلیٰ لیڈر اس میں شرکت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ڈی ایم کے سربراہ اسٹالن نے بھی شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اب سب شامل ہوں گے۔ راہل گاندھی بھی موجود ہوں گے۔ ممتا بنرجی ،شرد پوار اور اروند کیجریوال بھی موجود ہوں گے۔ ایم کے اسٹالن بھی ہوں گے اور اکھلیش بھی ہوں گے۔ یعنی بی جے پی مخالف تمام جماعتوں کا تقریباً ہر بڑا چہرہ موجود ہوگا۔
نتیش کمار کی سرپرستی میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی یہ میٹنگ بہت اہم ہے ۔میٹنگ میں پہلی بار بی جے پی کو انتخابات میں شکست دینے کی مشترکہ حکمت عملی پر بات چیت ہوگی۔ اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر اپوزیشن لیڈروں کے اسی طرح کے اجتماعات ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ان کا مقصد طاقت کا مظاہرہ یا ایوان میں بی جے پی کو گھیرنے تک محدود تھا۔ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے جب انتخابات میں بی جے پی کو ہرانے کی حکمت عملی پر غور و فکر ہونے جا رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں اب ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کی شکست سے کانگریس سمیت پوری اپوزیشن کا حوصلہ بلند ہے۔ وہ 2024 میں مودی کا جادو ٹوٹنے کی امید باندھے ہوئےہیں۔ بہار کے ڈپٹی سی ایم اور آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو آنے والے ہر الیکشن میں بی جے پی کی شکست کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے نتیش کمار یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر تمام اپوزیشن پارٹیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں تو بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 100 سیٹوں کے اعداد و شمار کو چھو نہیں سکے گی۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی زبردست جیت سے متحدہ اپوزیشن کی قیادت پر اس کا دعویٰ مضبوط ہوا ہے۔ کرناٹک انتخابی نتائج کے بعد اب اپوزیشن اتحاد کی تصویر بدل گئی ہے۔ اس سے پہلے ممتا، کے سی آر، کیجریوال وغیرہ اپنی سطح پر اپوزیشن اتحاد کی مہم چلا رہے تھے۔وہ کانگریس کی قیادت کو قبول کرنے سے کھلے عام ہچکچا رہے تھے۔حالانکہ انہوں نے ابھی تک کانگریس کی قیادت قبول نہیں کی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے لیے کانگریس ناگزیر ہو چکی ہے۔اب کانگریس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اعلیٰ لیڈر اپوزیشن اجلاس میں عدم موجودگی کے سبب اس کے انعقاد کی تاریخ بدلنی پڑی ہے۔ اب راہل گاندھی بھی میٹنگ میں شرکت کریں گے اور کانگریس صدر ملکارجن کھرگے بھی شرکت کریں گے۔
پٹنہ میں ہونے والی اس میٹنگ پر بی جے پی کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ اپوزیشن ابھی بھی اتحاد کی مہم میں مصروف ہے، لیکن بی جے پی پہلے سے ہی ’’مشن 2024‘‘میں مصروف ہے۔ وزراء سے لے کر تنظیم کے قائدین تک کو سیٹوں کا ہدف دیا گیا ہے۔ وہ انتخابات سے قبل پارٹی کا نیٹ ورک مضبوط کرنے میں بھی مصروف ہیں۔ پرانے حلیفوں جیسے اکالی، ٹی ڈی پی کو دوبارہ متحد کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے باہمی اختلافات بھی بی جے پی کے لئے راحت بخش ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کو چھوڑ کر باقی تمام اپوزیشن پارٹیوں کی سیاسی زمین ایک خاص ریاست تک محدود ہے۔ اروند کیجریوال کی ’’آپ‘‘ بھی صرف دہلی اور پنجاب میں مضبوط ہے۔ ہر ریاست کے اپنے سیاسی تانے بانے ہوتے ہیں۔ راہول گاندھی، اروند کیجریوال، ممتا بنرجی، کے سی آر….. سب کے اپنے اپنے عزائم ہیں، سب کی اپنی سیاست ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے مودی کا چہرہ کون ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے ،جو پٹنہ اجلاس میں لوگوں کے سامنے آ سکتا ہے۔ بی جے پی کے خلاف اپوزیشن سے مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے کی سمت میں اتفاق رائے کا راستہ بھی اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کی وجہ کانگریس اور علاقائی پارٹیوں کے متعلقہ مفادات ہیں۔ اس صورتحال پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا۔ مغربی بنگال، یوپی، دہلی، پنجاب، تلنگانہ جیسی ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں کانگریس پر اپنے لیے جگہ چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ ممتا بنرجی نے کھل کر کہا ہے کہ جن ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہیں اور بی جے پی کو سیدھا مقابلہ دے رہی ہیں، کانگریس کو ان کے لیے میدان خالی کرنا چاہیے۔ لیکن کانگریس شاید ہی اس تجویز کو قبول کرے گی۔ہاں، اگر اپوزیشن بی جے پی کے خلاف مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یقینی طور پر مہاراشٹر، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، پنجاب، کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ، دہلی، کیرالہ جیسی ریاستوں میں بی جے پی کو پریشانی ہو سکتی ہے۔چنانچہ اپوزیشن اتحاد کا اگلا قدم کیا ہوگایہ جاننے کے لئے 23 جون تک انتظار کرنا ہوگا۔
**************