TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –16 SEPT
اپوزیشن اتحاد’’ انڈیا‘‘ میں شامل جماعتوں نے 14 میڈیا اینکرز کے شو میں اپنے نمائندے نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کو مرکزی حکومت میں شامل یا بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر حکومت حامی لوگ ’’بائیکاٹ‘‘ کا نام دیتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کو آ ڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ظاہر ہے اس معاملے پر سیاست گرم نہ ہونے کا کوئی سوال ہی نہیںہے۔ دوسری طرف مبینہ طور پر نفرت سے بھرے نیوز شو میں شرکت نہ کرنے کے اپوزیشن اتحاد کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر پون کھیڑا کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے کسی نیوز اینکر پر پا بندی نہیں لگائ ہے، کسی کا بائیکاٹ نہیں کیا ہے یا کسی کو بلیک لسٹ نہیں کیا۔یہ عدم تعاون کی تحریک ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ معاشرے میں نفرت پھیلانے والے کسی کے ساتھ ہم تعاون نہیں کریں گے۔ جو سماج کے دشمن ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں۔حالانکہ کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔ اگر کل انہیں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ وہ جو کر رہے ہیں، وہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہے تو ہم دوبارہ ان کے شوز میں جانا شروع کر دیں گے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے ’’ ہر روز شام 5 بجے سے کسی نہ کسی چینل پر نفرت کی دکانیں لگ جاتی ہیں۔ ہم نفرت کے بازار کے گاہک نہیں بنیں گے۔ ہمارا مقصد ’’نفرت سے پاک بھارت‘‘ ہے۔ یہ فیصلہ متفقہ طور پر لیا گیا ہے کہ ہے کہ ہم کچھ اینکرز کے شوز اور ایونٹ میں شریک نہیں ہونگے۔ہم اپنے لیڈروں کے خلاف بے جا تبصروں اور فرضی خبروںکے خلاف لڑتے رہے ہیں، لیکن معاشرے میں نفرت پھیلانے نہیں دیں گے ۔’’ مٹے گی نفرت ، جیتے گی محبت۔‘‘
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ نے 14 ٹی وی اینکرز کی ایک فہرست جاری کی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو جاری اس فہرست میں ان پر نفرت سے بھری خبروں پرکیمرے کے سامنے بحث کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اتحاد کا ماننا ہے کہ’ نیوز 18 ‘کے امن چوپڑا، امیش دیوگن اور آنند نرسمہن،’ آج تک‘ کی چترا ترپاٹھی اور سدھیر چودھری،’ انڈیا ٹوڈے‘ کے گورو ساونت اور شیو ارور، ’انڈیا ٹی وی‘ کے پراچی پراشر، ’ریپبلک بھارت‘ کے ارنب گوسوامی، ’بھارت 24 ‘کے روبیکا لیاقت، ’ٹائمز ناؤ نوبھارت ‘کے نویکا کمار اور سوشانت سنہا، ’بھارت ایکسپریس‘ کی ادیتی تیاگی اور’ ڈی ڈی نیوز ‘کے اشوک سریواستو کا اپنے نیوز شو کے ذریعہ ملک میں نفرت پھیلانے میں بہت بڑا کردار ہے۔ لہٰذا، ان کے شوز میں ہم اپنے نمائندوں کونہیں بھیجیں گے۔
واضح ہوکہ گزشتہ جمعرات کو جاری مذکورہ لسٹ کے بعد سے حکمراں جماعت اور اس کے ہمنواؤں نے اپوزیشن اتحاد بالخصوص کانگریس پر حملہ بول دیا ہے۔حملہ بولنے والوں کی لسٹ میں ایک نام بی جے پی کے قومی صدرجے پی نڈا کا بھی ہے ۔ جے پی نڈا نے الزام لگایا ہے کہ اپوزیشن اتحاد 9 چینلز کے 14 اینکرز کا بائیکاٹ کرکے میڈیا کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس الزام کے جواب میں کرناٹک کے وزیر اعلی سدارامیا نے بھی بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ سدارامیا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جے پی نڈا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے’’ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ 10 سالوں میں ایک بھی پریس کانفرنس سے خطاب نہ کرکے ہر بھارتی صحافی کا بائیکاٹ کیا ہے۔ سدارامیا نے نے مزید کہا ہےکہ ان 14 اینکرز کا بائیکاٹ کرنا بھلاکیسے غلط ہو سکتا ہے، جنہوں نے ایک سیاسی پارٹی کے ماؤتھ پیس بن کر میڈیا کی اخلاقیات سے سمجھوتہ کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ نئی دہلی میں این سی پی سربراہ شرد پوار کی رہائش گاہ پر’ ’انڈیا‘‘ کی رابطہ کمیٹی کی گذشتہ بدھ کو ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ میٹنگ میں ہی مختلف نیوز چینلز کے ان 14 نیوز اینکرز کا بائیکاٹ کرنے کافیصلہ لیا گیا تھا ، جنھیں اپوزیشن اتحاد ان ’’متعصب اور فرقہ پرست‘‘ سمجھتا ہے۔ رابطہ کمیٹی کی میٹنگ کے ایک دن بعد اپوزیشن اتحاد کی میڈیا کمیٹی نے ان 14 نیوز اینکرز کے نام فائنل کر لیے اور ان کی فہرت بھی جاری کر دی ۔ اسی تسلسل میں جمعہ کو میڈیا کمیٹی کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا کہ اتحاد میں بائیکاٹ کی دوسری فہرست پر بھی کام جاری ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپوزیشن اتحاد’’ انڈیا‘‘آنے والے دنوں میں، اتحاد کی میڈیا کمیٹی صحافیوں کی ایک اور فہرست جاری کر سکتی ہے، جنھیں اپوزیشن اتحاد سماج کے لئے نقصاندہ مانتے ہوئے ان کا بائیکاٹ کرے گا۔ فہرست میں زیادہ تر نیوز اینکرز ہوں گے۔ ایک نیوز ایجنسی کو بھی اپوزیشن کی بائیکاٹ لسٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔لیکن دوسری فہرست کب جاری کی جائے گی اس کے لئے ابھی کوئی مقررہ وقت نہیں ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ حالات خواہ جیسے بھی ہوںہم بس ایک ہی اصول پر کام کرتے رہیں گے اور وہ ہے’’ مٹے گی نفرت ، جیتے گی محبت۔‘‘
*****************