نتیش کمار نفسیاتی دباؤ میں آنے والے نہیں ہیں

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN -20 SEPT     

کل 20 ستمبر کو پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا تیسرا دن تھا۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے والے خواتین ریزرویشن سے متعلق ’’ناری شکتی وندن بل‘‘ پر لوک سبھا میں بحث چل رہی تھی۔ سب سے پہلے وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے ایوان کو بل کے بارے میں بتایا۔اس کے بعد جب اپوزیشن اتحاد’’انڈیا‘‘ کو بحث میں حصہ لینے کا وقت آیا تو بل میں کئے گئے مختلف انتظامات کے حوالے سے تقریباََ سبھی ممبران پارلیمنٹ نے مبینہ طور پر بل کے پیچھے چھپے حکومت کے مقصد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس میں ایس سی ۔ایس ٹی کے ساتھ ساتھ او بی سی اور اقلیتی آبادی بالخصوص مسلم خواتین کوشامل کرنے کا مشورہ تو دیا ہی مرکزی وزیر انوپریہ پٹیل نے بھی او بی سی خواتین کے لیے کوٹہ طے کرنے کا مطالبہ کیا ۔
  بحث میں حصہ لیتے ہوئے سونیا گاندھی نے کانگریس کی طرف سے بل کی حمایت کرتے ہوئے حکومت سے گزارش کی کہ بل میں  ایس سی ۔ایس ٹی کے ساتھ ساتھ او بی سی کی خواتین کے لئے ریزرویشن کا انتظام کیا جا نا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ حد بندی تک اسے روکنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بحث کے دوران ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا کا کہنا تھا مسلم خواتین کے لیے بھی ریزرویشن ضروری ہے۔ اس 17ویں لوک سبھا میں صرف دو مسلم خواتین ممبران پارلیمنٹ ہیں اور دونوں ہماری پارٹی سے ہیں۔ بی جے پی جو بل لائی ہے وہ دراصل خواتین ریزرویشن ری شیڈولنگ بل ہے۔ دراصل ممتا بنرجی نے خواتین کے لیے 37 فیصد ریزرویشن کی بات کی تھی۔ اگر بی جے پی والے کہتے ہیں’’ مودی ہے تو یہ ممکن ہے‘‘ تو خواتین کو 37 فیصد ریزرویشن دے کر دکھائیں۔ اِدھر این سی پی ایم پی سپریہ سولے اور ایس پی ایم پی ڈمپل یادو نے بھی بل میں او بی سی خواتین کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کیا۔ سپریا کا کہنا تھا’’ حکومت کو دل سے کام لینا چاہئے اور بل میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی خواتین کے لئے ریزرویشن کا انتظام کرنا چاہئے۔ مردم شماری اور حد بندی ہونے تک خواتین کے ریزرویشن کو روک کر رکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ اور اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر اس کے لیے خصوصی اجلاس کیوں بلایا گیا؟ اس بل کو سرمائی اجلاس میں بھی پاس کیا جا سکتا تھا۔ابھی ملک کے حصے سیلاب سے متاثر ہیں، اس وقت اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی۔دوسری طرف بل کے حوالے سے جے ڈی یو کے رکن پارلیمنٹ للن سنگھ کا کہنا تھا کہ یہ 2024 کا انتخابی اسٹنٹ ہے۔ حکومت ’’انڈیا‘‘ اتحاد سے ڈرکر اس بل کو لائی ہے۔ اگر ان کی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ 2021 میں مردم شماری شروع کر دیتے۔ اس سے مردم شماری اب تک مکمل ہو چکی ہوتی اور 2024 سے پہلے خواتین کی ریزرویشن لاگو ہو چکی ہوتی۔عام آدمی پارٹی ایم پی سنجے سنگھ نے اس بل کو ’’ بیوقوف بناؤ خواتین بل‘‘ کہا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے 2024 سے پہلے نافذ کیا جائے۔اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے اس کومسلم مخالف اور او بی سی مخالف بل قرار دیا۔اپنی بات رکھتے ہوئے انھوں نےوزیر داخلہ امت شاہ سے یہ سوال کیا کہ ایوان میں ایک بھی جین خاتون رکن کیوں نہیں ہیں، جب کہ گجرات میں ان کی اچھی تعداد ہے ؟اس طرح ایوان میں موجود کئی اپوزیشن جماعتوں بشمول عام آدمی پارٹی، جے ڈی یو، ایس پی اور بی ایس پی کے ممبران نے او بی سی خواتین کے لیے نشستیںمحفوظ کرنے اور اسے 2024 سے نافذ کرنے کا زور دار مطالبہ کیا ۔
اِدھر بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار لالو پرساد یادو کی پارٹی آر جے ڈی نے بھی ’’ناری شکتی وندن بل‘‘ میں او بی سی کی خواتین کو شامل کرانے کی مہم شروع کردی ہے۔ انہوں نے خواتین کے ریزرویشن کی حمایت کی ہے۔ ساتھ انہوں نے ریزرویشن میں ریزرویشن کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کل کہا تھا کہ ہم نے بہار میں پنچایتی اور شہری انتخابات میں خواتین کو پہلے ہی ریزرویشن دے دیا ہے۔ ہم پہلے سے ہی خواتین کو 35 فیصد ریزرویشن دے رہے ہیں۔ خواتین کو پولیس میں بھی ریزرویشن دیا جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خواتین کو لوک سبھا اور اسمبلیوں میں بھی ریزرویشن ملے۔ اس دوران انہوں نے آر جے ڈی کے مطالبے کی بھی حمایت کی ہے ۔ بہار کی سابق سی ایم رابڑی دیوی نے بھی خواتین ریزرویشن بل میں انتہائی پس ماندہ اور پسماندہ طبقات کی خواتین کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ آر جے ڈی شروع سے ہی موجودہ نوعیت کے ’’خواتین ریزرویشن بل ‘‘کی مخالفت کر ر ہا تھا۔ اب خصوصی اجلاس بلا کر خواتین ریزرویشن بل کو پیش کرنے کے بعد آر جے ڈی کی طرف سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس معاملے پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے آر جے ڈی نے کہا کہ وہ اس 33 فیصد میں سب سے پسماندہ سماج کی خواتین کے لیے بھی ریزرویشن چا ہتا ہے۔
بہر کیف کوئی کچھ بھی مطالبہ کرے ، حکومت ابھی اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اکثریت کی بنیاد پر بل کو لوک سبھا سے پاس کروا سکتی ہے۔تاہم ، اس معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ’’ناری شکتی وندن بل‘‘ کے حوالے سے بہارکے سی ایم نتیش کے موقف اور آر جے ڈی کے موقف میں چند سیاسی ماہرین خورد بین لیکر اختلاف کی گنجائش ڈھونڈنے میں مصروف ہیں تاکہ اس حوالے سے یہ شور مچایا جا سکے کہ اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ ٹوٹ بھوٹ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔مگر کل ہی نتیش کمار نے او بی سی خواتین کے لیے بھی ریزرویشن کا مطالبہ کرکے   ایک طرح سے آر جے ڈی کی بات کی تائید کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ نفسیاتی دباؤ میں آنے والے نہیں ہیں۔
*******************