تاثیر،۲۱ اکتوبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن
اس وقت مدھیہ پردیش میں کانگریس اندرونی کشمکش اور انتشار کے حالات سے دوچار ہے۔ اس صورتحال کا مظاہرہ سر عام ہورہا ہے۔ سیاق و سباق کے لئے، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کانگریس نے 2018 میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن جس طرح سے جیوترادتیہ سندھیا کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں گئے تھے، اس کا ووٹروں پر بہت اچھا اثر نہیں پڑا تھا۔ انتخابات کے اعلان کے بعد جو ماحول پیدا ہوا تھا، اس سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ کانگریس اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسکے اسباب بھی تھے۔ دوسری جانب بی جے پی اگر ڈبل انجن کی بات کرتی ہے اور اس کے سرکردہ رہنمااپنی کامیابیوں کا دعویٰ کرتے ہیں، تو مجموعی طور پر، بی جے پی مدھیہ پردیش میں گزشتہ 20 سالوں سے برسراقتدار ہے اور مرکز میں بھی بی جے پی اقتدار میں ہے۔
اگر آپ ڈبل انجن ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں،تو جو انٹی انکمبنسی ہے یا حکومت کے خلاف عوام میں جو غصہ ہے ، تو اسے بھی تو آپ کو ہی جھیلنا پڑے گا۔ اس بار حکومت کے تئیں مدھیہ پردیش کے عوام میں غصہ ہے۔ اقتدار کی تیسری اور چوتھی اننگز میں شیوراج سنگھ چوہان کی مقبولیت کا گراف گرا ہے ۔ان کے دور اقدرار میں بیوروکریسی حاوی رہی ہے۔ اس لیے کانگریس کے امکانات اچھے لگ رہے تھے، کچھ حد تک اب بھی ہیں۔ کچھ دن پہلے تک صورتحال تقریباً کرناٹک جیسی لگ رہی تھی۔ کرناٹک میںحاصل کی گئی کامیابی کو مدھیہ پردیش میں دہرانے کی بات ہورہی تھی۔حالانکہ کانگریس کے امیدواروں کی فہرست سامنے آنے کے بعدجس طرح سے آپسی اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں اور مقامی، علاقائی اور اعلیٰ کمان کی سطح پر جوگیپ دکھائی دینے لگا ہے، اس کی وجہ سے ایسا لگنے لگا ہے کہ کانگریس اچانک بیک فٹ پر آ گئی ہے۔در اصل ایم پی کے سابق سی ایم اور موجودہ پی سی سی صدرکمل ناتھ کا یہ بیان جو وائرل ہو رہا ہے ، وہ بہت اچھے امیدوار کو ٹکٹ نہ ملنے کے سلسلے میں آیا ہے، لیکن جس انداز سے آیا ہے، اس سےیہی لگتا ہے کہ وہ کسی تجربہ کار لیڈر کا بیان نہیں ہے۔
واضح ہو کہ ان دنوں ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے تذکرے ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ ان میں مدھیہ پردیش کی بحث سب سے زیادہ زوروں پر ہے۔ کیونکہ پردیش کانگریس صدر کمل ناتھ اور ریاست کے سینئر کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ کے درمیان کی سیاسی کشیدگی اب سڑک پر آ چکی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں کانگریس کے امیدواروں کے ناموں کے اعلان کے بعد کمل ناتھ پارٹی کے ناراض لیڈروں کے حامیوں سے کہہ رہے ہیں کہ’ ’ جاؤ اوردگ وجے اور ان کے بیٹے کے کپڑے پھاڑ دو۔ ‘‘ جب بی جے پی نے اس ویڈیو کلیپ کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا تو ریاست میں بھوچال سا آ گیا ہے۔حالانکہ کمل ناتھ اوردگ وجے کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار خاندانی اور سیاسی تعلقات رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ کانگریس مدھیہ پردیش میں ان دنوں ٹرانزیشن پریڈ سے گزر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی 10 سالہ وزارت اعلیٰ کے دوران دگ وجے سنگھ اتنے غیر مقبول ہو گئے تھے کہ ریاست میں ان کی اور ان کے کارکنان کی موجودگی کے باوجود یہی مانا جا رہا ہے کہ اگر کانگریس آج یہ اعلان کرتی ہے کہ’’ وہ جیت گئی تو دگ وجے سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا‘‘ تو کانگریس کو ایک چوتھائی سیٹیں بھی نہیں مل سکتی ہیں۔ دوسری جانب جب کمل ناتھ کی حکومت چلی گئی تو یہ بہانہ سامنے آیا تھا کہ یہ سب جیوتی رادتیہ سندھیا کی وجہ سے ہوا تھا، لیکن مدھیہ پردیش کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے یہ مانتے ہیں کی حکومت کے جانے کی زمین دگ وجے سنگھ نے ہی تیار کی تھی ۔دگ وجے اور جیوترادتیہ سندھیا کی سیاسی عداوت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پھر جب کمل ناتھ وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نےدگ وجے سنگھ کو فری ہینڈ بھی دیاتھا۔ انہوں نےدگ وجے سنگھ پر پورا بھروسہ کیا اور اس کی ایک وجہ بھی تھی کہ1993 میں، جب کانگریس لیڈر سبھاش یادو مدھیہ پردیش کے سی ایم بننے والے تھے، ارجن سنگھ کے شاگرد ہونے کے ناطے کمل ناتھ نے دگ وجے سنگھ کو سی ایم بنانے میں بہت مدد کی تھی۔
اگر ہم تھوڑا اور پیچھے جائیں تو ارجن سنگھ کو بھی کمل ناتھ نے چیف منسٹر بنوانے میں بڑی مدد کی تھی۔ کمل ناتھ کو امید تھی کہ وہ دگ وجے سنگھ پر بھروسہ کر سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس کی وجہ سے بھی کمل ناتھ ناخوش تھے۔ حالانکہ ان دونوں کی چپقلش کی وجہ سے کانگریس کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا، لیکن پچھلے چند دنوں کے دو دنوں کے درمیان جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ الگ ہی سطح کا ہے۔ ریاست کے لوگوں میںیہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ پارٹی کے اندر اور باہر سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ خاص طور پر جب سے کانگریس کی جانب سے امیدواروں کی جو فہرست جاری ہوئی ہے، یہی بات عام لوگوں کی زبان پر ہے کہ اس فہرست میں کئی بڑے لیڈروں کے نام نہیں ہیں اور اس کے لیے کمل ناتھ ہی پوری طرح سے ذمہ دار ہیں۔
اِدھر کمل ناتھ نے سماجوادی پارٹی کے سربراہ کو ’’اکھلیش وکھلیش‘‘ کہہ کر ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔کمل ناتھ کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ بھنڈ سے ریوا تک ایس پی کے 4 سے 5 فیصد ووٹ ہیں،جو 30 سے 40 سیٹوں کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ کانگریس نے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کرنے سے پہلے اکھلیش یادو سے کوئی بات نہیں کی ہے۔ حالانکہ ایس پی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے۔ بہر حال سیاست کے ماہرین یہ مانتے ہیں کہ اس وقت کمل ناتھ کا رویہ بہت ہی طلسمی اورپراسرار ہے۔ اگر اس صورتحال کو ایک جملہ میں واضح کرنا ہو تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر مدھیہ پردیش میں کانگریس جیت جاتی ہے تو اس کی جیت کا سہرا بھارتیہ جنتا پارٹی کو جائے گا اور اگر وہ ہار گئی تو الزام کمل ناتھ پر آئے گا۔
*******