تذکرۂ محبوب الہی نظام الدین اولیاء علیہ الرحمۃ

تاثیر،۳  نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

 

 

مولانا عمران رضا منظری ، سنبھلی

مرکز علوم و فنون شہر بخارا پر تاتاریوں کے ظلم و ستم اور تباہ کاریوں کے بعد بے شمار علماء و مشائخ و صوفیا نے مع اہل عیال سرزمین ہند کی طرف ہجرت کی۔ انہی مشائخ میں شیخ الشیوخ محبوب الہی نظام الدین اولیاء کے آباء و اجداد بھی ہیں۔ آپ کے نانا خواجہ عرب اور دادا خواجہ سید علی سرزمین بخارا پر ہی پروان چڑھے۔ یہ دونوں ہی علم روحانیت سے فیضیاب تھے۔ زمانے کی ہلاکت خیزیوں سے الگ تھلگ رہ کر اپنی اولاد کو علمی وروحانی تربیت و پرداخت کی خاطر آپ حضرات نے دارالسلطنت دہلی کے بجائے مدینۃ الاولیاء بدایوں شریف کو اپنا مسکن بنایا جبکہ بخارا و شام و یمن سے آنے والے بہت سے دنیاوی جاہ و مرتبے کے متمنی حضرات دہلی ہی سکون پذیر ہو ئے لیکن آپ کے اجداد وقتی عہدے اور حکمرانوں کے عطا کردہ مراتب سے دور رہ کر زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں گزارنے کے خواہش مند تھے اس لیے آپ نے بدایوں شریف میں آ کر اہل علم و عرفان کے مابین اپنی شناخت قائم کی۔ آپ کے والد سید احمد کا روحانی شہرہ چہار جانب ہوا۔ خلق خدا بہت جلد آپ کی طرف مائل ہو گئی۔ آپ کے والد مادرزاد ولی اور باعمل عالم تھے۔ سلطان شمس الدین کی تعمیر کردہ شمسی جامع مسجد میں پہلی نماز کی امامت آپ نے ہی انجام دی تھی۔ اسی سے آپ کے علو مرتبت ہونے کا اندازہ اس وقت کے مشائخ و صوفیا کے مابین لگایا جا سکتا ہے۔ آپ کے زہد و تقوی سے متاثر ہو کر بادشاہ دہلی نے بدایوں کا قاضی مقرر کیا مگر جلد ہی آپ نے دنیوی معاملات سے بے نیاز رہنے کے سبب استعفا دے دیا اور یاد خدا میں مزید مشغول رہنے لگے۔
ولادت و نسب : سرکار محبوب الہی کی پیدائش 27 صفر المظفر 634ھ مطابق 1236ء بروز بدھ کو بدایوں شریف میں ہوئی آپ نجیب الطرفین حسینی سید تھے۔
والدہ: آپ کی والدہ بی بی زلیخہ بنت سید عرب نہایت شریف اور صابرہ و شاکرہ صفت خاتون تھیں۔
والد کا انتقال: سرکار محبوب الہی ابھی پانچ سال کے تھے کہ آپ کے والد سید احمد بخاری کا وصال ہو گیا۔ آپ کا روضہ مبارک بدایوں شریف میں آج بھی منبع خلائق بنا ہوا ہے۔
زمانہ یتیمی میں تعلیم و تربیت: آپ کی والدہ نے شوہر نامدار کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد اپنے لخت جگر محبوب الہی کی بڑی جاں فشانی اور فقر و تنگی کے عالم میں علمی و روحانی پرورش کی۔ بدایوں شریف کے مشہور عالم و فاضل مولانا علاؤ الدین اصولی کی خدمت میں حصول علم کے لیے بھیجا جہاں ختم قدوری کے بعد وقت کے مشاہیر علماء و مشائخ کے ہاتھوں دستار فضیلت کا تاج آپ کے زیب سر کیا گیا۔ مجلس دستار میں موجود مشائخ طریقت نے بلندیٔ اقبال کے لیے دعائیں دیں۔
سفر دہلی: 16 سال کی عمر میں بدایوں شریف میں علم شریعت حاصل کر کے مزیدمتبحر عالم شریعت و طریقت بننے کے لیے آپ سلطان ناصر الدین محمود 643 ھ تا 664ھ کے زمانے میں دہلی میں موجود مشائخ وعلماء سے علوم کثیرہ حاصل کیے۔ ابتداہی سے آپ کی والدہ نے آپ کو تقوی و توکل کی تعلیم دی تھی۔ آپ کی طبیعت شروع ہی سے طریقت کی طرف مائل تھی۔
بابا فرید گنج شکر سے اکتساب فیض: حضرت محبوب الہی اجودھن جا کر حضرت بابا فرید گنج شکر کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شرف بیعت سے مالا مال ہوئے۔ کافی وقت آپ کی بارگاہ میں رہ کر طریقت و معرفت کے اسرار و رموز کے بحر نا پیدا کنار میں مستغرق ہوئے۔ حضرت نے آپ کو وقت رخصتی اپنی خلافت و اجازت وخرقہ عطا فرمانے کے ساتھ استقامت فی الدین کا سبق پڑھایا۔ مشائخ کے مابین فرمایا کہ آج ہم انہیں ہندوستان کی ولایت عطا کرتے ہیں اور اپنا سجادہ نشین مقرر کیا۔ بعدہ آپ شوال 669 ھ میں اجودھن سے دہلی آئے اور مرشد گرامی کی ہدایت کے مطابق دین و ملت کی خدمات کی۔ آپ سلسلے چشت کے چوتھے سربراہ ہیں۔ آپ نے اپ نے اکابر چشت حضرت خواجہ غریب نواز، خواجہ بختیار کا کی، حضرت بابا گنج شکر کے دینی وروحانی و اخلاقی تعلیمات کو تادم آخر عام سے عام کیا۔ آپ کے فیض یافتہ وقت کے عظیم صوفیا اولیاء اور محبوبان خدا بنے۔ بے شمار لوگ آپ کے در ولایت سے اپنی مرادیں پائے۔ پوری زندگی عبادت خدا و اطاعت مصطفی اور خدمت خلق خدا میں بسر کی۔ زندگی کے اکثر اوقات مجاہدوں میں صرف کیے۔ آپ کے ارشادات سن کر لوگ تزکیہ ٔقلب و روح حاصل کرتے۔ مظلوموں کی امداد و عیانت کا خاص سبق دیتے۔ حکمرانوں سے پوری زندگی الگ رہے۔ آپ سے ایک زمانے نے علم شریعت و طریقت کے جام شیریں نوش کی، رعیت خدا فیضیاب ہوتی رہی اور آج بھی خلق خدا کا ہجوم آپ کے مزار مبارک پر سرزمین دہلی پر ہر ساعت نظر آتا ہے۔ 18 ربیع الآخر 725 ھ مطابق ۱۳۲۴ءبروز بدھ سلسلہ چشتیہ کا یہ امام رشد و ہدایت غروب ہوا۔ آج ہم اس امام الاولیاء کی بارگاہ میں عرس کے مبارک موقع پر عاشقان نظام الدین اولیاء کے ہمراہ خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اللہ رب العزت آپ کے فیوض سے جملہ غلامان محبوب الہی کو مالا مال فرمائے۔آمین