دو روز کے دوران عراق اور شام میں امریکی افواج پر پانچ حملے

تاثیر،۸  نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

واشنگٹن،8نومبر:امریکی دفاعی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ عراق اور شام میں گزشتہ دو روز کے دوران امریکی افواج پر کم از کم پانچ حملے ہوئے ہیں۔پینٹاگان نے منگل کے روز کہا ہے کہ تازہ ترین راکٹ حملے میں شام میں ایک تنصیب کو نشانہ بنایا گیا جسے مشن سپورٹ سائٹ فرات کہا جاتا ہے۔ تاہم اس حملے میں امریکی افواج کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی اڈے کے بنیادی ڈھانچہ متاثر ہوا ہے۔اس سے قبل منگل کو امریکی حکام نے ایک اور حملے کی تصدیق کی تھی اور بتایا تھا کہ عراق کے شہر اربیل میں ایک ڈرون نے فضائی اڈے کو نشانہ بنایا تھا۔ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں نے پہلے پیر کے روز اربیل ایئر بیس کو نشانہ بنایا تھا جب کہ شام میں طل بیدار کے قریب امریکی افواج پر دو حملے کیے تھے۔پینٹاگان کے مطابق امریکی افواج پر ہونے والے کسی بھی حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔پینٹاگان کی نائب پریس سیکریٹری سبرینا سنگھ نے منگل کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ سترہ اکتوبر سے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیائیں مجموعی طور پر امریکی افواج پر 40 حملے کر چکی ہیں۔ ان میں سے بائیس حملے عراق میں جب کہ اٹھارہ حملے شام میں امریکی اڈوں اور فوجی اہلکاروں پر ہوئے۔ان کے بقول شام اور عراق میں ہونے والے حملوں میں مجموعی طور پر 46 امریکی فوجی زخمی ہوئے تھے جن میں سے بیشتر صحت یاب ہونے کے بعد واپس ڈیوٹی پر آگئے ہیں۔حزب اللہ کے میڈیا ریلیشنز آفس کی طرف سے 25 اکتوبر 2023 کو جاری کی گئی اس تصویر میں، حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ، دائیں طرف، فلسطینی اسلامی جہاد، مرکز کے سربراہ زیاد النخلیح، اور حماس کے نائب سربراہ صالح العروری سے بیروت میں ملاقات کر رہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کیا ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کو وسعت دینے سے باز رکھنے کے لیے امریکہ نے اپنے بحری بیڑے، درجنوں لڑاکا جیٹ طیارے اور بلیسٹک میزائلوں سے لیس آبدوز خطے میں بھیجی ہے۔سبرینا سنگھ کے مطابق ایسے میں جب مشرقِ وسطیٰ میں امریکی افواج پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ہمارا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تصادم اسرائیل سے باہر تک نہ پھیلنے پائے۔انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ امریکہ کو ڈرون اور راکٹ حملوں کا جواب دینے میں کوئی تامل رہا ہے۔البتہ کہاں اور کب جواب دینا ہے، اس کا انتخاب ہم خود کرتے ہیں۔