جھک کر سلام کرنے کے آداب اور ہیں یہ کیا حضور آپ نے تو سر جھکا دیا احیا بھوج پوری

تاثیر،۱۰ دسمبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

تم سوچتے ہو عیش کا بستر ہے میسر میں دھوپ کے صحرا میں تھکن اوڑھ رہا ہوں مسعود حساس
زہر کے تاجر ترے آنے سے اتنا تو ہوا سانپ تھے جتنے پرانے، بے ضرر لگنے لگے ندیم ظفر جیلانی دانش
شارجہ میں بزمِ صدف انٹرنیشنل کا عالَمی مشاعرہ تزک واحتشام کے ساتھ منعقد
دنیا کے مختلف ممالک کے منتخب شعرا نے اپنے معیاری کلام پیش کیے،صفدر امام قادری کی صدارت اور مسعود حساس کی نظامت
[قسط اوّل]
شارجہ؍پٹنہ۔ ۱۰؍دسمبر۔ آج مشاعروں میں عدم شائستگی، معیار سے کھلواڑ اور سَستا پن کے مظاہرے کچھ اِس انداز سے ہونے لگے ہیںکہ مشاعروں سے محبت کرنے والے اور اردو شاعری سے عقیدت رکھنے والے افراد رفتہ رفتہ مشاعروں سے دُور ہوتے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سچّے شعرا نے مشاعروں کا منچ خالی کر دیا ہے اور متشاعروں، دوسروں سے کلام لے کر اپنے ترنّم کا جادو جگانے والے شعرا اور شاعرات کی ایسی بھیڑ اُمڈ آئی ہے کہ حقیقی شاعری گزرے زمانے کی چیز ہوگئی اور سچّے شعرا یا تو رسائل کے صفحات میں قید ہو گئے یا نااُمّیدی اور مایوسی کا شکار ہو کر اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔ نتیجہ یہ بھی سامنے آیا کہ مشاعروں کا منچ اپنا وقار کھوتا گیا اور ڈرامے بازی کرنے والے یا گانے بجانے والے شعرا یا متشاعروں سے ہماری پوری ادبی محفل لُٹ گئی۔ ہمارے اسلاف نے مشاعروں کا ایک مستحکم ادارہ قائم کیا تھا اور میر و غالب سے ہوتے ہوئے فراق و فیض تک اِن سے زبان و ادب کی خدمات کاصحت مند کام لیا جاتا تھا مگر صدیوں کی قومی وراثت کو رفتہ رفتہ ہم نے کچھ اِس طرح ضائع ہونے کے لیے چھوڑ دیا کہ اب ۹۹؍فیصدی ہمارے مشاعروں کے اسٹیج سے سنجیدہ شاعری اور خود سے شعر کہنے والے شعرا غائب ہو
گئے۔ اب مشاعرے یا تو بزمِ موسیقی ہیں یا ڈرامے میں ادا کاری کا ایک نمونہ۔
ایسے مایوس کُن حالات میںبزمِ صدف انٹرنیشنل نے ہندستان سے لے کر دوحہ قطر اور شارجہ، دوبئی تک اپنے مشاعروں میں اِس بات کی گارنٹی رکھی کہ ہمارے منچ پر صرف حقیقی شعرا اور اپنی زبان کی دہائیوں سے خدمت کرنے والے افراد کو مدعو کیا جائے گا۔ترنّم بھی مشاعرے کی کلاسیکی روایت سے ہم آہنگ ہو کر سامنے آئے اورآج کے رواج کے عین مطابق وہ بزمِ موسیقی کا حصّہ نہ بن جائے۔ بزمِ صدف کے مشاعروں میں اکثر و بیش تر ہندستان ،پاکستان اور خلیج کے ممالک کے علاوہ امریکا،کینیڈا اور برطانیہ میں مقیم ایسے نمایندہ شعرا کو زحمت دی جاتی ہے جن کے لیے شعر و ادب اُوڑھنا بِچھونا اور عبادت کا درجہ رکھتے ہوں اور اِس کے برخلاف وہ سَستا کار وباری ذہن سے دُورہوںاور محض علمی خدمت کا سر و کار اُن کے پیشِ نظر ہو۔
شارجہ میں گذشتہ اتوار کی رات بزمِ صدف انٹرنیشنل کی ایوارڈ تقریب کے بعد پاکستان سوشل سنٹر کے خوب صورت ہال میں جو مشاعرہ منعقد ہوا، وہ اِس اعتبار سے انفرادی شان رکھتا تھا کہ وہاں معیاری شاعری سنی جائے گی اور شعرا کو اپنے ادبی کارناموں کی وجہ سے داد مِلے گی۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سادہ انداز میں بھی جن شعرا نے اپنے گہرے اشعار سنائے، اُنھیں بھی بار بار سنا گیا اور اُن کے ہر اچھے شعر کی اُنھیں ایسی داد مِلی کہ وہ سامعین کے
معیار سے خود حیرت زدہ تھے۔
مشاعرے کی نظامت کویت سے تشریف فرما معتبر شاعر جناب مسعود حسّاس نے اپنے مخصوص انداز میں شروع کی۔ وہ حسبِ ضرورت بیان کی سادگی میں مفرس و معرب اسالیب کو کچھ اِس طرح ضم کرتے گئے کہ سچ مچ یہ احساس ہوتا تھا کہ ریگ زار کا یہ وہ خطہ ہے جہاں اردو زبان کی تنو مندی میں عربی اور فارسی ماحول اپنا خونِ جگر صرف کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے مشاعرے کے پہلے شاعر کے طور پر متحدہ عرب امارات سے تعلّق رکھنے والے ایک نوجوان شاعر ن۔ے۔ عدن کو آواز دی۔ شکل و صورت سے یہ نوجوان طویل ریش اور مجموعی طور پر بانکپن کے آثار کے ساتھ مائک پر آیا۔ آواز میں حد درجہ ریڈیائی لہریں موجود تھیں۔ چھوٹی چھوٹی نظموں سے اُنھوں نے گفتگو شروع کی۔ اُن کی عمر اور تجربے سے بڑھ کر یہ بات اُبھرنے لگی کہ صنفِ نظم کے تقاضوں سے یہ شخص پورے طور پر واقف ہے اور نظم میں اَن کہا کتنا ہونا چاہیے، اُس کی صریح تمیز اِس شاعر میں موجود ہے۔ اُنھوں نے پَے بہ پَے کئی نظمیں پیش کیں اور ہر نظم پر اُنھیں خوب خوب داد ملی۔ اُن کی ایک نظم کچھ اِس طرح تھی:
کون سنے گا؟
میں ہوں!
تْم ہو !
اپنے علاوہ کوئی بھی آدم زاد نہیں ہے
اور ہمارے بیچ یہ جتنی دیواریں ہیں
نفرت کی ہیں
اُونچا بولو
اِن کے کان نہیں ہوتے (ن۔ ے۔ عدن)
مشاعرے میں ن۔ے۔ عدن نے جو ادبی معیار متعین کیا، اُس کا سلسلہ دوسرے نو عمر شاعر دوبئی سے تشریف فرما سیّد مسعود نقوی نے مزید معیار کے ساتھ قائم رکھا۔ اپنے عہد کے مسائل اور زندگی کی ناگفتہ بہہ کیفیات پر شاعر کی سب سے خاص نظر تھی، اِس لیے اُن کے یہاں زندگی کے نرم گوشوں کے مقابلے سخت اور اُوبڑ کھابڑ مراحل زیادہ اُبھر کر سامنے آتے رہے۔ بے حد پُر وقار لہجے میں اِس نوجوان نے اپنی غزل پیش کی۔ تین اشعار ملاحظہ ہوں:
 یہ وقت کا تقاضہ ہے کھل کر جواب دوں
سب سانپ آستین کے پیروں سے داب دوں
مجھ کو چلا رہا ہے جو اپنے حساب سے
وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کو حساب دوں
جو لوگ مر گئے ہیں زمانے میں جیتے جی
جینے کا ان کو کیوں نہ حسیں کوئی خواب دوں (سیّدمسعود نقوی)
دوبئی میں مقیم ہند و پاک کے متعدد شعرا اِس مشاعرے میں شریک ہوئے۔ نیا انداز اور لفظوں سے آزمائی ہوئی دنیا سے مختلف منظر نامہ مرتَّب کرنے والے اِن شعرا کا مقامی ہونے کے باوجود اُسی انداز سے رنگ جما جیسا بعد میں مہمان شعرا کے ساتھ لوگوں کا بہترین سلوک قائم رہا۔ یہ سچ ہے کہ شعر میں ترسیل کی طاقت ہوگی تو وہ عوام و خواص کی ہر محفل میں اپنے حصّے کی قبولیت کا تمغہ ضرور پائے گا۔سمیعہ ناز ملک( دوبئی)، عائشہ شیخ آشی (دوبئی) اور احیا بھوج پوری (دوبئی) نے حلقۂ دوبئی کی معقول نمایندگی کی اور یہ سمجھ میں آیا کہ شعر و شاعری کا معیاری اور پُر اثر لب و لہجہ کیسا ہو سکتا ہے۔ اِنھیں بھر پور داد بھی ملی اور سننے والوں نے اِنھیں اپنی محبتوں سے نوازا۔ اِن کے چند اشعار جو پسند کیے گئے، ملاحظہ ہوں:
اتنی آساں بھی نہیں قیس کی تقلید یہاں
عشق میں پاؤں زیادہ نہ پسارے جائیں
ہر وفادار محبت کو یہ اعزاز ملے !!!
جتنے عاشق ہیں بیاباں میں اتارے جائیں
ہم کو بھی اپنی صداقت کا ملے کوئی ثبوت
 نارِ نمرود سے ہم بھی تو گزارے جائیں (سمیعہ ناز ملک)
تری دنیا کا غصہ اس لیے بھی کم نہیں ہوتا
کہ سب کے سامنے یہ سر ہمارا خم نہیں ہوتا
مرے ہاتھوں میں میری جیت کا پرچم سلامت ہے
لڑائی ہارتا ہے وہ کہ جس میں دم نہیں ہوتا (عائشہ شیخ آشی)
کچھ تجربے سے سیکھیے اور کچھ کتاب سے
رستہ نیا نکالیے اپنے حساب سے
عنوان موت رکھا تھا جس نے کتاب کا
زندہ ہے اس کا نام بھی اس کی کتاب سے
طوفاں نے اک دیے کو جب آگے بڑھا دیا
باقی بچے دیوں نے ہی طوفاں اٹھا دیا
جھک کر سلام کرنے کے آداب اور ہیں
یہ کیا حضور آپ نے تو سر جھکا دیا (احیا بھوج پوری)
تانیثی شاعری کا جو نیا آہنگ عائشہ شیخ آشی اور سمیعہ ناز ملک نے قائم کیا، اُسے مصر سے تشریف فرما شاعرہ ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی اور پاکستان سوشل سنٹر کی سربراہ محترمہ صائمہ نقوی نے اور آگے بڑھایا۔ معصوم جذبوں کی ترجمانی اور اپنے عہد کے سفّاک حقائق کے بیچ میں ایک عورت کس طرح الجھتی رہتی ہے، اِس کا احساس اِن شعرا کے کلام سے بہ خوبی ہو جاتا ہے۔ صائمہ نقوی کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
ہم پہ بھی یہ وقت آئے گا کبھی سوچا نہ تھا
بخت ایسے آزمائے گا کبھی سوچا نہ تھا
جوہری تھااصل قیمت جانتا تھا وہ مری
کوڑیوں میں بیچ جائے گا کبھی سوچا نہ تھا
لَوٹ جاؤں میں کبھی ماضی میں سوچا تھا مگر
میرا ماضی لَوٹ آئے گا کبھی سوچا نہ تھا
پیکرِ اخلاص تھی، میں صندلیں احساس تھی
وہ مجھے یوں چھوڑ جائے گا کبھی سوچا نہ تھا (صائمہ نقوی)
ناظمِ مشاعرہ مسعود حسّاس (کویت) کو اُن کے شاعرانہ اختصاص کے ساتھ ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانش نے آواز دی۔ مسعود حسّاس موجودہ عہد کی مہجری شاعری کا ایک نمایندہ نام ہے۔ تارکینِ وطن کی زندگی عالَمی منڈی میں کس بھاؤ الجھ رہی ہے، مسعود حسّاس کے اشعار اِس کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ ریگستان کو تارکینِ وطن نے اپنے لہو سے جس طرح سینچا ہے، مسعود حسّاس کی شاعری میں اِس امر کی واضح ترجمانی ہوتی ہے۔ سجی دھجی زندگی اندر سے کتنی روکھی پھیکی اور مشکل مراحل کی ترجمان ہے، اِس کا احساس مسعود حسّاس کے اشعار میں بہت آسانی سے ہو سکتا ہے۔ اُن کے چند متفرق اشعار ملاحظہ ہوں:
تم سوچتے ہو عیش کا بستر ہے میسر
میں دھوپ کے صحرا میں تھکن اوڑھ رہا ہوں
بہت سنبھل کے اٹھانا کوئی قدم اپنا
شریف شخص ہمیشہ نظر میں رہتا ہے
غریبی کو تو مل ہی جاتی ہے دو وقت کی روٹی
مگر دولت کے گھر راحت بہت مشکل سے آتی ہے
انتقاماً وہ کھرچتا ہے مرا مرہم زخم
احتراماً اسے اکسیر پہ رکھ دیتا ہے (مسعود حساس)
مسعود حسّاس نے اپنے اشعار سے مشاعرے کو مزید بلندی عطا کی اور اُنھوں نے بزمِ صدف کی قطر شاخ کے صدر اور علی گڑھ مسلم یو نی ورسٹی کے فارغ، مشہورمعالج ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانش کو دعوتِ سخن دی۔ اُن کے لہجے کا بانک پن اور بے تکلفی سے ہر طرح کے مضامین کو شعر میں باندھنے کی صلاحیت نے سب کومتاثر کیا۔سننے والوں نے اُنھیں خوب خوب داد دی۔ سیاسی اور سماجی مسئلوں پر اُن کے اشارے بھی لوگوں کی سمجھ میں آ رہے تھے اور جذبات کی معصوم کیفیات سے بھی سامعین شرابور ہو رہے تھے۔ اُن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اس بیت کا پھر مصرعہ ثانی نہیں کہتے
آنکھوں نے جو کہہ دی ہو زبانی نہیں کہتے
زہر کے تاجر ترے آنے سے اتنا تو ہوا
سانپ تھے جتنے پرانے، بے ضرر لگنے لگے
رہتا ہے پہچان کے گم ہونے کا خوف
ندیاں جب ساگر میں آ کر ضم ہوتی ہیں
کہنی تھی ایک بات بصد اہتمام شوق
لو وہ بھی نذر شدت جذبات ہو گئی (ندیم جیلانی دانش)
(باقی آئندہ)