تاثیر،۱۵ دسمبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن
بہار کو خصوصی ریاست درجہ دینے سے متعلق نتیش حکومت کے مطالبے کو ایک بار پھر مرکز نے ٹھکرا دیا ہے۔جے ڈی یو کے قومی صدر راجیو رنجن عرف للن سنگھ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محکمہ مالیات کے وزیر مملکت نے خصوصی درجہ کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر وہی دلیل دی ہے جو یو پی اے حکومت میں وزیرمالیات پی چدمبرم نے اور این ڈی اے کے دور میںوزیر مالیات ارون جیٹلی نے دی تھی۔وزیر مملکت برائے مالیات پنکج چودھری نے جے ڈی یو لیڈر راجیو رنجن عرف للن سنگھ کے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بہار خصوصی درجہ دینے کے لیے ضروری معیار کو پورا نہیں کرتا ہے۔
وزیر مملکت پنکج چودھری کا کہنا تھا کہ30مارچ، 2012 کو پیش کی گئی بین وزارتی گروپ (آئی ایم جی) کی رپورٹ کی بنیاد پر، بہار خصوصی زمرے میں آنے کے لیے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا ہے۔ ماضی میں نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل (این ڈی سی) کے ذریعہ کچھ ریاستوں کو منصوبہ بندی کی مدد کے لئے خصوصی زمرہ کا درجہ دیا گیا تھا، جس میں کئی خصوصیات تھیں ،جن پر خصوصی غور کرنے کی ضرورت تھی۔ان خصوصیات میں پہاڑی اور الگ تھلگ علاقہ، کم آبادی کی کثافت، قبائلی آبادی کا بڑا حصہ اور پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدوں پر اسٹریٹجک محل وقوع، اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کی پسماندگی شامل ہیں۔ چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اوپر درج تمام عوامل کے ہر پہلو پر غور و فکر کی بنیاد پر ہی کسی ریاست کو خصوصی درجہ دیا جا سکتا ہے۔
14 ویں مالیاتی کمیشن کی سفارش کے مطابق، مرکزی حکومت نے 2015 سے 2020 کی مدت کے لیے ریاستوں کے لیے خالص قابل اشتراک ٹیکس کا حصہ 32 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کر دیا ہے۔ ایم او ایس نے منظوری کے بعد، 15ویں مالیاتی کمیشن کی سفارش نے بھی اسے 41 فیصد پر برقرار رکھا تھا۔ وہیں2020 سے 2026 کی مدت کے لیے ریاست جموں و کشمیر کی تنظیم نو کی وجہ سے 1 فیصد ایڈجسٹ کیا گیا تھا۔ 14ویں مالیاتی کمیشن کی سفارشسے مرکزی ٹیکسوں میں ریاست کی حصہ داری بڑھ گئی ہے۔ اس طرح ریاستوں کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اضافی مالیاتی مواقع دستیاب ہوئے ہیں۔ ایسے میں بہار کو، جن پیمانوں پرخصوصی ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ ہے ، وہ پیمانے مطلوبہ معیار پر کھرے نہیں اتر تے ہیں۔
اِدھر بی جے پی حامی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو یہ معلوم تھا، اس کے باوجود انھوں نے ایوان کا رخ کیا اور لوک سبھا کے اجلاس کے دوران اپنے رکن پارلیمنٹ للن سنگھ کے توسط سے وہ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ ایوان کی میز پر سوالات کے ذریعے لے آئے۔ نتیش کمار کا مقصد در اصل معاملے کو ایوان کی میز پر لا کر بی جے پی کو شرمندہ کرنا تھا۔ ساتھ ہی ا نھیں یہ پیغام بھی دینا تھا کہ یہ حکومت غریب مخالف اور بہار مخالف ہے، تاکہ آنے والے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی لیڈر ایک آواز میں کہیں کہ بہار میں غربت بڑھی ہے، پھر بھی بی جے پی خصوصی ریاست کا درجہ نہیں دے رہی ہے۔اس کی حمایت میں بہار حکومت نے ایک مشن کے طور پرذات اور اقتصادی بنیاد پرسروے بھی کرایا۔ اب نتیش کمار اس اقتصادی سروے کو عوام کے درمیان پیش کریں گے اور مرکزی حکومت کے ذریعہ بہار کو نظر انداز کرنے کی بات عوامی جلسوں میں کرکے ووٹوں کی گولبندی اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ کے حق میںکرانے کی کوشش کریں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی پہلے ہی جے ڈی یو کے مقصد کو بھانپ گئی تھی۔ اسی لیے نتیش کمار کو ایوان کے فلور پر جواب دینے کی پوری اسکرپٹ تیار کر لی تھی اور موقع ملتے ہی نتیش کمار کے اس مشن کو ناکام کر دیا۔
قابل ذکر ہے کہ بہار میں نتیش حکومت نے، ریاست کو خصوصی درجہ دینے کے وزیر اعلیٰ کے دیرینہ مطالبہ پر زور دیتے ہوئے اس سلسلے میں، نومبر کے تیسرے ہفتے میں کابینہ کی میٹنگ میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔میٹنگ کے بعدانہوں نے ایک طویل پوسٹ میں لکھا کہ کابینہ نے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں مرکز سے بہار کو خصوصی درجہ دینے کی درخواست کی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ حکومت کے ذریعہ کرائے گئے کاسٹ بیسڈ سروے کے نتائج کی وجہ سے یہ مطالبہ ضروری ہو گیا ہے۔مگر مرکزی حکومت کے رویّے سے یہ صاف ہو گیا ہےکہ بہار سیاست کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔مانا جا رہا ہے کہ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے نتیش کمار کے ذریعہ سیٹ کیا گیا محض ایک انتخابی ایجنڈاہے۔نتیش حکومت کے مطالبے کو مرکز کے ذریعہ مسترد کر دئے جانے کے بعد اب یہ دیکھنا ہے کہ عوام کی عدالت کس کے موقف کو بجا اور کس کے موقف کوبے جا قرار د یتی ہے۔ ظاہر ہے اکثریت جہاں کھڑی ہو گی وہی صحیح ہوگا۔
*********************