تاثیر،۲فروری ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
غزہ ، 02 فروری :فلسطینی گروپ حماس کا کہنا ہے کہ مصر اور قطر کی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ فائر بندی کے مجوزہ معاہدے کا آغاز ابتدا میں چھ ہفتوں کے لیے لڑائی کو روکنے کے ساتھ ہو گا، جس کے دوران غزہ کی پٹی میں مزید امداد بھیجی جائے گی۔حماس کے ایک ذرائع نے بتایا کہ ‘تین مرحلوں پر مشتمل فائر بندی کا یہ منصوبہ ابتدا میں چھ ہفتوں کے لیے لڑائی کو روکنے کے ساتھ شروع ہو گا۔’ ذرائع کے مطابق: ‘اسرائیل میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے اس مرحلے کے دوران حماس کی جانب سے صرف خواتین، بچوں اور بیمار مردوں کو رہا کیا جائے گا۔’ مزید کہا گیا: ‘اسرائیلی افواج کے انخلا کے بارے میں بھی مذاکرات اور مزید قیدیوں کے تبادلے شامل ہوں گے۔’حماس کے ذرائع نے مزید کہا کہ ‘غزہ کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو بھی معاہدے کے ذریعے حل کیے گئے مسائل میں شامل ہے۔’ فائر بندی کی کچھ ٹھوس تجاویز پر اسرائیل اور امریکہ نے گذشتہ ہفتے پیرس میں ہونے والے مذاکرات میں اتفاق کیا تھا۔مذاکرات کے حوالے سے ایک فلسطینی عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ معاہدے کے مجوزہ متن میں 40 دنوں کی فائر بندی کے پہلے مرحلے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ جس کے تحت حماس ان اسرائیلی قیدیوں میں سے بقیہ شہریوں کو رہا کرے گا، جو اس کے پاس اب بھی قید میں ہیں۔ مزید مراحل میں اسرائیلی فوجیوں اور قیدیوں کی لاشیں حوالے کی جائیں گی۔حماس کی طرف سے ابھی تک اس معاہدے کی تجویز پر کوئی باقاعدہ جواب سامنے نہیں آیا۔دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے غزہ سے افواج کے انخلا کو مسترد کر دیا ہے اور سات اکتوبر 2023 کی حماس کی کارروائی کے جواب میں گروپ کو تباہ کرنے کا بارہا اعلان کیا ہے۔اسرائیل نے شمالی اور وسطی غزہ کو مکمل تباہ کرنے کے بعد غزہ پر اپنی جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے مصر کی سرحد کے قریب رفح کے علاقے کو ہدف بنانے کا اعلان کیا ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنت نے جمعرات کو کہا کہ ‘جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف ‘لڑائی میں کامیابی’ کے بعد اس کی فوجیں پٹی کی جنوبی سرحد پر واقع رفح کی طرف پیش قدمی کر سکتی ہیں۔’ غزہ کی کل 23 لاکھ آبادی میں سے نصف سے زیادہ لوگ اسی علاقے میں پناہ لیے ہوئے ہیں، خاص طور پر عارضی خیموں اور عوامی عمارتوں میں جہاں انہیں پہلے ہی شدید سردی اور بھوک کا سامنا ہے۔گیلنت نے ایک بیان میں کہا: ‘ہم خان یونس میں اپنے مشن کو مکمل کر رہے ہیں اور ہم رفح بھی پہنچیں گے اور ‘دہشت گرد’ عناصر کو ختم کر دیں گے، جو ہمارے لیے خطرہ ہیں۔’ اسرائیلی وزیر دفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب قطر اور مصر کی ثالثی میں نئے فائر بندی معاہدے پر حماس کی طرف سے مثبت جواب کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔غزہ میں وزارت صحت نے جمعرات کو بتایا کہ سات اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں تصدیق شدہ فلسطینیوں کی اموات کی تعداد 27 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ایک فلسطینی عہدیدار نے کہا کہ ‘ حماس کی جانب سے اس تجویز کو یکسر مسترد کرنے کا امکان نہیں ہے لیکن وہ اس بات کی ضمانت کا مطالبہ کرے گی کہ لڑائی دوبارہ شروع نہیں ہوگی جس پر اسرائیل کبھی اتفاق نہیں کرے گا۔’ قطر کے ترجمان کے تبصرے کے بعد جمعرات کو غزہ میں ایک مختصر سی خوشی دیکھی گئی اور خام تیل کی قیمت میں کمی کے بعد فائر بندی کی امیدیں پیدا ہوئیں۔دوحہ میں قطری حکام اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے میڈیا ایڈوائزر طاہر النونو نے کہا کہ گروپ نے ابھی تک تجویز کا کوئی جواب نہیں دیا۔ادھر غزہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے خان یونس کے ہسپتالوں کے ارد گرد کے علاقوں پر گولہ باری کی اور رفح کے قریب حملے تیز کر دیے ہیں۔حالیہ دنوں میں غزہ شہر کے آس پاس کے ان شمالی علاقوں پر بھی گولہ باری میں اضافہ ہوا ہے، جنہیں اسرائیل نے ایک ہفتے قبل زیر کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔غزہ شہر سے تعلق رکھنے والے 49 سالہ اسامہ احمد نے کہا کہ شہر میں شدید مزاحمت ہوئی اور اسرائیلی ٹینکوں کی پیش قدمی کے ساتھ ہی فضائی، زمینی اور سمندر سے مسلسل بمباری کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا: ‘ہم صرف جنگ بندی چاہتے ہیں۔’ہسپتال کے حکام کے مطابق جمعرات کو خان یونس میں ایک گھر پر فضائی حملے میں 13 افراد زخمی ہوئے۔اسرائیل کے اہم اتحادی امریکہ کی طرف سے غزہ کے شہریوں کی تکالیف کو کم کرنے کی اپیلیں بظاہر ناکام ثابت ہوئی ہیں تاہم واشنگٹن تل ابیب پر بالواسطہ دباؤ بڑھا رہا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر حملہ کرنے والے یہودی آباد کاروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔عرب نیوز کے مطابق حماس کے رہنماؤں کی غزہ میں مجوزہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے قاہرہ آمد متوقع ہے جب کہ حماس اسرائیل کے ساتھ چھ ہفتے کی فائر بندی کی تجویز کا جائزہ لے رہی ہے۔