تاثیر،۲۰ اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
ایران اور اسرائیل کے درمیان یکم اپریل سے بڑھتی ہوئی کشیدگی نے اب اس کے مشرق وسطیٰ سے باہر پھیلنے کا امکان بڑھا دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایران نے اسرائیل پر 300 سے زائد ڈرونز اور میزائلوں سے حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یکم اپریل کو شام کے شہر دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے بعد سےہی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ ایران نے اس حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا تھا۔ تاہم اسرائیل نے ابھی تک اس پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا ہے۔ حالانکہ گزشتہ جمعہ کو امریکہ نے کہا تھا کہ اسرائیل نے ایران پر میزائل سے حملہ کیا ہے،جس کے بعد خطے میں کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صورتحال بھارت کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ اس کے ایران اور اسرائیل دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مغربی ایشیائی ممالک میں بھی رہتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازعہ بھارتی معیشت کو بھی متاثر کر سکتا ہے ۔اِدھر ایران کے حملے کے بعد ہی بھارت کی وزارت خارجہ نےاپنے شہریوں کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ ان دونوں ممالک کا سفر کرنے سے گریز کریں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازعات کے درمیان بھارت کا سب سے بڑا چیلنج ان ممالک اور مغربی ایشیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے اپنے لاکھوں شہریوں کی حفاظت ہے۔
اِس وقت اسرائیل میں تقریباً 18 ہزار بھارتی ہیں جبکہ پانچ سے 10 ہزار بھارتی شہری ایران میں رہ رہے ہیں۔ حماس کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیل میں تعمیراتی شعبے میں مزدوروں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت ہند اور حکومت اسرائیل کے درمیان معاہدے کے تحت اتر پردیش اور ہریانہ کے 10 ہزار کارکنوں کو اسکریننگ کے بعد اسرائیل بھیجنے کا پروگرام تھا۔فی الحال ہریانہ سے تقریباً 530 کارکن اسرائیل جا چکے ہیں، لیکن بھارتی حکومت کی ٹریول ایڈوائزری کے بعد باقی ماندہ لوگوں کا اسرائیل جانے کا منصوبہ لٹکا ہوا ہے۔ اس بیچ انڈین کونسل آف فارن افیئرز سے وابستہ سینئر فیلو ڈاکٹر ایف رحمٰن کہتے ہیں، ’’ہمارے 10 ملین لوگ مغربی ایشیا کے ممالک میں رہتے ہیں، جو ہر سال تقریباً 50 سے 55 لاکھ ڈالر کی رقم بھارت بھیجتے ہیں۔ بھارت کو تیل فراہم کرنے والے ممالک سعودی عرب اور ایران مغربی ایشیا میں ہی ہیں، اگر اس خطے میں کشیدگی بڑھی تو یہ یقینی طور پر بھارت کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
اسی دوران ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو بھارت کے لیے زیادہ دیر تک غیر جانبداری کی پالیسی برقرار رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی تصدیق کے بعد عالمی سطح پر خام تیل اور سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔پچھلے جمعہ کو ایشیا میں خام تیل کی قیمتوں میں تین فیصد اضافہ ہوا۔ خام تیل کی قیمت 90 ڈالر فی بیرل کے قریب پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ ہی سونے کی قیمت ایک نیا ریکارڈ چھو کر 2400 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی۔واضح ہو کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے پوری معیشت متاثر ہوتی ہے۔ ابھی وطن عزیز بھارت لوک سبھا انتخابات کے دور میںہے۔اس درمیان اگر مہنگائی بڑھتی ہے تو اس کا براہ راست اثر ملک کی انتخابی سیاست پڑے گا، جو بھارت نہیں چاہتا ہے۔
جہاں تک اس معاملے میں امریکہ کی مداخلت کی بات ہے تو اس سلسلے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران پر پہلے بھی امریکی پابندیاں لگتی رہی ہیں، لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ اب اگر بھارت نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی تو ایران کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہ سکتے ہیں اور اگر بھارت ایران سے قربت ظاہر کرتا ہے تو اسے اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ظاہر ہے موجودہ بحران پر بھارت کی جانب سے خاموشی اختیار کرنا بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت بھی تذبذب کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی ایسے معاملات میں غیر جانبداری پر مبنی ہے۔حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے بھارت کے لئے اس معاملے میں خاموشی برقرار رکھنا یا زیادہ دیر تک غیر جانبدار رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے سفارتی تعلقات کی تاریخ زیادہ لمبی نہیں ہے۔ اسرائیل 1948 میں ایک ملک کے طور پر وجود میں آیا تھا لیکن بھارت نے 1992 میں اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ تاہم اس کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ بھارت کے تعلقات دن بہ دن مضبوط ہوتے گئے ہیں۔ اب اسرائیل بھارت کو اسلحہ اور ٹیکنالوجی برآمد کرنے والے سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے ایران کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں۔ ایران بھارت کو تیل فراہم کرنے والے سرفہرست ممالک میں سے ایک تھا۔ جوہری پروگرام کی وجہ سے ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں سے قبل ایران بھارت کو تیل برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود بھارت نے ایران کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
اِدھر بھارت میں ایران کے سفیر ایرج الٰہی کا، انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس سے گفتگو کے دوران کہنا ہے ’’ بھارت کو غزہ میں جنگ روکنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘ مگر ماہرین کی نظر میںایران اور اسرائیل کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا آسان نہیں ہے۔ ایران کا واضح موقف ہے کہ مسئلہ فلسطین کو حل کیا جانا چاہئے۔مگر یہ اسرائیل کے بغیر قطعی ممکن نہیں ۔دوسری جانب بھارت اسرائیل پر حماس کے حملے کو دہشت گردانہ حملہ سمجھتا ہے، جو ایران کی نظر میں درست نہیں ہے۔ایسے میں بھارت فی الحال’’ آگے کنواں اور پیچھے کھائی ‘‘ کی پوزیشن میں ہے اور ماہرین کے مطابق یہ صورتحال کم سے کم لوک سبھا انتخابات کا پروسس مکمل ہونے تک تو برقرار رہے گی ہی۔
*********