تاثیر،۶ مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
آج 7 مئی ہے۔رواں لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلے میں 12 ریاستوں کی 93 سیٹوں پر امیدواروں کی قسمت آج ای وی ایم میں قید ہو جائےگی۔ شدید گرمی کے درمیان پولنگ صبح 7 بجے شام 5 بجے تک چلےگی۔ اس مرحلے میں آسام کی 4، بہار کی 5، چھتیس گڑھ کی 7، دادر اور نگر حویلی کی 1، دمن اور دیو کی 1، گوا کی 2، گجرات کی25، کرناٹک کی 14، مدھیہ پردیش کی 8، مہاراشٹر کی , اتر پردیش کی 10 اور مغربی بنگال کی 4 لوک سبھاسیٹوں کے لئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ پہلے طے شدہ پروگرام کے مطابق جموں و کشمیر کی اننت ناگ اورراجوری 2 لوک سبھا سیٹوں کے لیے بھی اسی دن ووٹنگ ہونی تھی، لیکن اب یہاں ووٹنگ کو 25 مئی کو ہوگی۔لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلے میں ملک کی 93 لوک سبھا سیٹوں پر آج صبح 7 بجے سے جہاں ووٹ ڈالے جا ئیں گے ۔ ان میں بہار کی پانچ سیٹیں جھنجھا پور، سپول، ارریہ، مدھے پورہ اور کھگڑیا بھی شامل ہیں۔ یہاں کل 54 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ ان میں 51 مرد اور 3 خواتین انتخابی میدان میں ہیں۔ جھنجھا پو میں 10، سپول میں 15، ارریہ میں 9، مدھے پورہ میں 8 اور کھگڑیا میں 12 امیدوار میدان میں ہیں۔ان پانچ لوک سبھا سیٹوں میں سے ارریہ پر اس لئے پورے ملک کی نظر لگی ہوئی ہے کیوں کہ اس سے متصل علاقہ فاربس گنج کوہندی کے مشہور ادیب پھنیشور ناتھ رینو اور ان کے آفاقی ناول ’’میلا آنچل‘‘ کی وابستگی کا فخر حاصل ہے۔ یہ وہی فاربس گنج ہے جہاں سے پھنیشور ناتھ رینو نے 1972 میں اسمبلی الکشن لڑا تھا اور ہار گئے تھے۔
اب یہ 2024 کا ارریہ ہے۔ آج کے انتخابی تانے بانے اور مذہبی منافرت کے ماحول نے اسے بہار کی چند ہاٹ سیٹوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔ 2014 میں مودی لہر کے دوران بھی یہ سیٹ آر جے ڈی کے کھاتے میں گئی تھی۔ وجہ بالکل واضح ہے، اس سیٹ پر 42 فیصد مسلمان اور 15 فیصد یادو ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ تناسب 57 فیصد ہوتا ہے۔یعنی ایم وائی کاجھکاؤ جدھر ہوتا ہے ، جیت کا امکان ادھر ہی چلا جاتا ہے۔یہاں ہندو ووٹر کا تناسب 56 فیصد کے قریب ہیں۔یہاں سیمانچل گاندھی کے لقب سے مقبول آر جے ڈی کے سینئر لیڈر محمد تسلیم الدین کے چھوٹے بیٹے شاہنواز عالم اور ان کے سیاسی شاگرد اوربی جے پی کے امیدوار پردیپ کمار سنگھ کے درمیان سیدھی ٹکر ہے۔
ارریہ سیٹ چھ اسمبلی حلقوںپر مشتمل ہے۔یہاں کل ووٹر تقریباً 19 لاکھ ہیں۔یہاں کے لوگ بڑے امن اور آپسی بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں۔مگر الیکشن کے موقع پر مذہب کی بنیاد پر عموماََ دو خیموں میں بنٹ جاتے ہیں۔اس بار بھی مذہب اور ذات پات کا رنگ یہاں کے اہم مدعوں پر حاوی ہے۔ یہاں آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو اور سی ایم نتیش کمار سے زیادہ پی ایم نریندر مودی کا تذکرہ ہو رہاہے۔اس بار ووٹروں کا ایک بڑا طبقہ پی ایم نریندر مودی کی شبیہ کے مد نظر ووٹ دینے کے موڈ میں ہے۔یہ طے ہے کہ اس کا سیدھا فائدہ این ڈی اے کو ملنے جا رہا ہے۔مگر دوسرا خیمہ بھی ملک کے آئین کے تحفط، جمہوریت بقا اور ملک میں مذہبی رواداری کی بحالی کا ہتھیار لیکر چناوی مورچے پر ڈٹا ہوا ہے۔
شروع میں ارریہ سیٹ کانگریس کا گڑھ تھی۔ کانگریس کے تلموہن راؤ پہلی بار 1967 اور 1971میں یہاں سے ایم پی بنے تھے۔ 1977 میں، کانگریس مخالف لہر میں، یہ سیٹ بھارتیہ لوک دل کے مہندر نارائن نے جیتی تھی۔ کانگریس نے 1980 اور 1984 میں دوبارہ کامیابی حاصل کی، لیکن اس کے بعد یہ سیٹ کبھی کانگریس کے کھاتے میں نہیں گئی۔ جنتا دل کے سکھدیو پاسوان یہاں 1989، 91 اور 96 میں کامیا بب ہوےتھے۔ رام جی داس نے پہلی بار یہ سیٹ 1998 میں بی جے پی کے لیے جیتی تھی۔ پھر 2004 میں آر جے ڈی اور 2009 میں بی جے پی کے ٹکٹ پر جیتے۔ یہ سیٹ 2009 تک محفوظ تھی۔ارریہ پہلے پورنیہ ضلع کا ایک حصہ تھا۔ 1990 میں اسے الگ ضلع کا درجہ ملا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برطانوی دور حکومت میں الیگزینڈر جان فالس (1749-1826) ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایجنٹ تھا ۔ وہ یہاں نیل کی کاشت کی نگرانی کرتا تھا۔ اس کے بنگلے کو ’’ر ہائشی علاقہ ‘‘کہا جاتا تھا۔ مقامی لوگوں نے اپنی سہولت کے لیے اسے’’ آر۔ ایریا‘‘ کہنا شروع کیا۔ پھر رفتہ رفتہ اسے ارریہ کہا جانے لگا۔ اس کے بعد اسی نام پر سرکاری مہر بھی لگ گئی۔
پردیپ کمار سنگھ کے سیاسی سفر کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ پہلی بار سال 2005 میں ارریہ صدر سیٹ سے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ لوگوں کے درمیان ان کی شبیہ صاف ستھری تھی۔ جس کی وجہ سے وہ 2009 میں پہلی بار ایم پی بنے۔ لیکن 2014 میںسینئر آر جے ڈی لیڈر اور اپنے سیاسی گرو محمد تسلیم الدین سے چناؤہار گئے۔محمد تسلیم الدین کے انتقال کے بعد 2018 میں دوبارہ انتخابات ہوئے اور ان کے بڑے بیٹے سرفراز عالم یہاں سے آر جے ڈی کے ٹکٹ پر جیت گئے۔ لیکن اگلے ہی سال 2019 میںہوئے عام انتخابات میں بی جے پی کے پردیپ دوبارہ یہاں سے ایم پی بن گئے۔ 2024 میں سرفراز عالم اورپردیپ کمار سنگھ حسب سابق بالترتیب آرجے ڈی اور بی جے پی کے ٹکٹ پر ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔رجحان سے پتہ چل رہا ہے کہ علاقے کا تاجر طبقہ پوری طرح سے پی ایم نریندر مودی کے ساتھ ہےجبکہ نوجوان طبقہ روزی روزگار کی بات کر رہا ہے۔ علاقے کے نوجوانوںکی شکایت ہے’’ الیکشن کوئی بھی جیتے مگر ہماری زندگی میں تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔کوئی ہمارے مسئلے کو سننے سنجھنے والا نہیں ہے۔یہاں کے نوجوانوں کو روزی روٹی کے لئے کولکتہ، دہلی یاممبئی جانا پڑتا ہے۔ایسے میں کسے ووٹ دیں ، ہم طے نہیں کر پا رہے ہیں۔‘‘
***********