تاثیر۲۸ جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
عام انتخابات کے بعد بھارت میں 18ویں لوک سبھا کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزیراعظم بننے والے دوسرے لیڈر بن گئےہیں۔اس بار کے انتخابات میں این ڈی اے اتحاد کو اکثریت سے 21 سیٹیں زیادہ حاصل ہو ئی ہیں۔اس بنا پر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت بن گئی ہے۔ تمام خدشات کے باوجود بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اوم برلا لگاتار دوسری بار اسپیکربن گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی حکمران جماعت اور اپوزیشن نے مستقبل کی سیاست کا نیا اسکرپٹ بھی لکھ دیا ہے، جو بھارت کےآئین کے حوالے سے الزامات اور جوابی الزامات کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
لوک سبھا انتخابات میں حزب اختلاف’’انڈیا‘‘ اور خاص طور پر کانگریس ، بی جے پی کے 400 سے زیادہ کے نعرے کو آئین کے لئے خطرناک بتاکر اس کی حفاظت کو ایک مضبوط انتخابی مسئلہ بنانے میں کامیاب ہو گئی۔اس طرح بی جے پی کو 63 سیٹوں سے محروم ہونا پڑا۔ انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر پوری بی جے پی تک راہل گاندھی اور کانگریس کے اس حملے کا مؤثر جواب نہیں دے سکے۔ نئی لوک سبھا میں ارکان پارلیمنٹ کی حلف برداری کے دوران کانگریس سمیت اپوزیشن اتحادکے بیشتر ارکان پارلیمنٹ نے اپنے ہاتھوں میں آئین کی چھوٹی کاپی پکڑی اور ’’ جئے سنویدھان‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے واضح کیا کہ آئین کا مسئلہ صرف انتخابات تک محدود نہیں تھا، مستقبل میں بھی یہ بطور مسئلہ زندہ رہے گا۔
اگر لوک سبھا کے انتخابات کے بعد مہاراشٹرا، ہریانہ، جھارکھنڈ، جموں کشمیر، دہلی اور بہارمیں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں آئین کا مسئلہ سامنے آتا ہے اور دلت، قبائلی اور انتہائی پسماندہ لوگ ’’انڈیا اتحاد ‘‘کا رخ کرتے ہیں تو ان تمام ریاستوں میں بی جے پی بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ اسی صورتحال سے بچنے کے لئے حزب اختلاف کے آئین کے تحفظ کے مقابلے میں بی جے پی نے ایمرجنسی کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کیا کہ اس وقت کی کانگریس حکومت نے ملک میں جمہوریت کو 19 ماہ تک قید کرکے رکھا تھا اور ملک کی جیلوں کو سیاسی قیدیوں سے بھردیا تھا۔
پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایمرجنسی کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب اسپیکر اوم برلا نے ایوان میں ایمرجنسی کی مذمت کی۔ برلا نے ایوان میں لائی گئی مذمتی تحریک کو پڑھا اور اس تحریک کے ذریعے کانگریس کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے ایمرجنسی کی زیادتیوں اور مظالم کا تفصیل سے ذکر کیا۔ اگلے دن صدر کے خطاب میں بھی ایمرجنسی کی یاد دلاتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی۔ اس طرح بی جے پی نے کانگریس اور اس کے آئین کو بچانے کے نعرے کا یہ کہہ کر جواب دیا کہ آئین اب نہیں بلکہ اس وقت خطرے میں تھا جب ملک پر ایمرجنسی لگائی گئی تھی اور ایسا کرنے والی کانگریس کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ’’آئین بچاؤ ‘‘کا نعرہ بلند کرے۔ بی جے پی کا یہ سیاسی داؤ تب کامیاب ہوتا ہوا نظر آیاجب اس کی ایک جھلک ایوان میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ اوم برلا کو اپیکر منتخب کئے جانے کی تجویز کے خلاف نعرے لگاتے رہے لیکن سماج وادی پارٹی، ڈی ایم کے اور آر جے ڈی جیسی جماعتوں کے ارکان خاموش رہے۔
پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایمرجنسی کی یاد تازہ کرنے اور اس کی مذمت کئے جانے کے حوالے سے کانگریس لیڈروں کا کہنا ہے کہ 49 سال پرانے معاملے کو اٹھا کر بی جے پی صرف اپنی جلن اور خوف کا اظہار کر رہی ہے۔ کانگریس کی ترجمان سپریا سولے نے ایک ویڈیو جاری کیا ہے۔ویڈیو میں نریندر مودی کی 10سالہ حکومت کے خلاف کئی الزامات عائد کرتے ہوئے اسے غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دیا گیا ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے بھی پی ایم مودی پر یہی الزام لگایا ہے۔ کانگریس لیڈر اومکارناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’وہی لوگ جنہوں نے 1977 کے انتخابات میں اندرا گاندھی اور کانگریس کو شکست دی تھی اور انہیں ایمرجنسی کی سزا دی تھی، صرف ڈھائی سال بعد ہوئے انتخابات میں اندرا گاندھی کو دو حلقوں رائے بریلی اور میدک سے فتحیاب کیا۔اس وقت کانگریس کو 350 سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں۔اس سب کے درمیان سماج وادی لیڈر،سوپا کے رکن پارلیمنٹ اور دلت لیڈر آر کے چودھری نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے نصب سنگرول کو ہٹانے اور وہاں آئین کو نصب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چودھری کا کہنا ہے کہ’’ سینگول بادشاہت کی علامت، جس کی بھارت کی آئینی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘حالانکہ بی جے پی49 سال بعد ایمرجنسی کے بھولے بسرے خاکے میں سیاست کا نیا رنگ بھر کر اسے عوام بے بیچ لے جانے کی تیاری کر رہی ہے۔بی جے پی کی کوشش ہے کہ کانگریس نے جس طرح دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ طبقات اور انتہائی پسماندہ طبقات میں آئین کو بدلنے کا بھرم پھیلایا ہے، اسے ایمرجنسی کے تیر سے ہی کاٹ دیا جائے کیونکہ کانگریس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جبکہ کانگریس کا ماننا ہے کہ ایمرجنسی کے بعد عوام نے 1980، 1984، 1991، 2004 اور 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو اپنا مینڈیٹ دیا ہے، اس لیے یہ مسئلہ اب نہیں چلے گا۔
پارلیمنٹ میں ’’تو ڈال ڈال تو ہم پات پات‘‘ کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بات چیت اور تعاون کا جو امکان لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد ظاہر کیا جا رہا تھا وہ اجلاس کے پہلے ہی دن ختم ہو گیا ہے۔ حکمراں پارٹی اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے جس طرح کا رویہ سامنے آیا ہے اس سے اس خوف کو تقویت ملی ہے کہ 18ویں لوک سبھا میں تعاون اور بات چیت کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا زیادہ مقابلہ ہوگا۔ حکومت کا واضح پیغام یہ ہے کہ وہ آج بھی اتنی ہی مضبوط ہے جتنی پہلے تھی۔ دوسری جانب اپوزیشن نے حکومت اور ملک کو یہ پیغام دیا ہے کہ حکمران جماعت نے گزشتہ 10 سال سے جو من مانی کی ہے، اب وہ جاری نہیں رہے گی کیونکہ اب اپوزیشن بھی مضبوط ہے۔راہل گاندھی ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔اب وہ کئی کمیٹیوں میں شامل ہوں گے۔ وہ سی بی آئی، سی وی سی، الیکشن کمیشن جیسے اداروں کی سلیکشن کمیٹیوں کے رکن کے طور پر پی ایم کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بیٹھیں گے۔سیاسی مبصرین کا بھی یہی ماننا ہے کہ 18 لوک سبھا میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔