عوام پارٹی سے اوپر اٹھ کر فیصلہ سنا سکتے ہیں

تاثیر۱۴  جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

  سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو شکست دے کر آزاد امیدواروں کا چناؤ جیت جانا بہار میں ایک نئے سیاسی رجحان کی جانب اشارہ کر رہاہے ۔ پورنیہ پارلیمانی حلقہ سے پپو یادو کے بعد پورنیہ ضلع کے روپولی اسمبلی حلقہ سے جے ڈی یو اور آر جے ڈی کے امیدواروں کا آزاد امیدوار سے ہار جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بہار میں دو دن پہلے تک واحد آزاد ایم ایل اے سومیت سنگھ ہوا کرتے تھے۔  اسے محض اتفاق مانا جاتا تھا۔مگر اب شنکر سنگھ دوسرے آزاد ایم ایل اے بن گئے ہیں۔ ویسے بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی آزاد کے لیے مضبوط پارٹی یا اتحاد کے امیدواروں کو شکست دے کر چناؤ جیت جانا کئی طرح کے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں آزاد  امیدوار کی جیت کا واضح مطلب ہے کہ لوگوں نے پارٹی یا اتحاد کے بجائے امیدوار کو ترجیح دی ہے۔
پارلیمانی انتخاب میں پورنیہ نے آزاد امیدوار پپو یادو کو پسند کیا تھا۔ اس کے بعد پورنیہ ضلع کے روپولی اسمبلی ضمنی انتخاب میں عوام نے آزاد امیدوار شنکر سنگھ کو ترجیح دی ہے۔ پورنیہ کے لوک سبھا انتخابات میں عوام نے این ڈی اے کے جے ڈی یو امیدوار سنتوش کشواہا اور انڈیا بلاک سے آر جے ڈی امیدوار بیما بھارتی کو مسترد کر دیا  اور آزاد امیدوار پپویادو کی حمایت کی۔ روپولی ضمنی انتخاب میں بھی یہی صورتحال رہی۔ لوگوں نے این ڈی اے کےجے ڈی یو امیدوار کالادھر منڈل اور انڈیا بلاک کے آر جے ڈی امیدوار بیما بھارتی کو درکنار کر آزاد امیدوار شنکر سنگھ کو ترجیح دی۔ اگر مستقبل میں بہار کی سیاست میں لوگ اسی طرز پر پارٹیوں کو سائڈ میں کرکے صرف امیدوار کوالیٹی کے مد نظر ووٹ دیتے ہیں تو یقینی طور پر پورنیہ اس کا بیس پوائنٹ ثابت ہوگا۔
  پارلیمانی انتخابا ت میںتیجسوی یادو نے پپو یادو کو ہرانے کے لیے کون سی چال نہیں استعمال کی؟  پپو یادو کی حمایت کو دیکھ کر تیجسوی کی گھبراہٹ اس قدر بڑھ گئی کہ انہوں نے این ڈی اے کو ووٹ دینے اپیل تک کر ڈالی۔ اس کے باوجود آر جے ڈی امیدوار بیما بھارتی تیسرے نمبر پر رہیں۔ یہی نہیں، بیما کے اپنے اسمبلی حلقہ روپولی میں بھی لوگوں نے ضمنی انتخاب میں انہیں مسترد کر دیا ہے۔
لوک سبھا انتخابات اور اسمبلی ضمنی انتخابات میں بیما بھارتی کی شکست کے بعد اب اس کے سیاسی کیریئر پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔  ایک انتہائی پسماندہ اکثریتی علاقے میں اعلیٰ ذات کی جیت کے ساتھ، آر جے ڈی نے ضرور یہ سمجھ لیا ہوگا کہ بیما بھارتی پر داؤ  لگانا مزید خطرے سے خالی نہیں ہے۔  اگر آر جے ڈی اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بیما بھارتی کو ٹکٹ دینے سے انکار کردے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔ اس طرح نتیش کمار ساتھ چھوڑ نا ان کے لئے بہت مہنگا ثابت ہو سکتا پے۔ بیما دونوں انتخابات میں نہ تو خود جیت سکیں اور نہ ہی اس نے جے ڈی یو کو جیتنے دیا۔ دو کے درمیان لڑائی میں تیسرے کو جیتنے کا موقع مل گیا۔ شنکر سنگھ ایک بار ایل جے پی کے ٹکٹ پر ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ اس بار ایل جے پی کو سمجھو تے میں موقع نہیں ملا ۔ چنانچہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں کود گئے۔  راجپوت ذات سے تعلق رکھنے والے شنکر سنگھ کی جیت قابل ذکر ہے، کیونکہ روپولی میں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا غلبہ ہے۔ان کی جیت کا صاف مطلب ہے کہ این ڈی اے کے خاص ووٹروں نے بھی انھیں دل سے مدد کی ہے۔ صرف آٹھ ہزار ووٹوں سے پیچھے رہ جانے والے جے ڈی یو کے کلادھر منڈل نے بھی ایک اہم اشارہ چھوڑا ہے۔
پسماندہ اور انتہائی پسماندہ ذاتوں پر جے ڈی یو کی گرفت اب بھی برقرار ہے۔ کلادھر نے اس انتخابی جنگ میں بھرپور مقابلہ کیا۔ ہاں، یہ یقینی طور پر آر جے ڈی کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ذات کے سروے، ریزرویشن اور سرکاری نوکریوں کے لالی پاپ دکھا کر بھی تیجسوی دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کا دل نہیں جیت سکے۔ تاہم شنکر سنگھ کی جیت سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وہ سمیت سنگھ کی طرح نتیش کے ساتھ رہیں گے یا پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی کا حصہ بن کر اسمبلی میں پارٹی کا کھاتہ کھولیں گے۔ جن سوراج پارٹی سے ان کے وابستگی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ پرشانت کشور نے ان کی حمایت کی تھی۔ حالانکہ جے ڈی یو اور بی جے پی دونوں کو امید ہے کہ شنکر سنگھ کسی صورت میں ان کے ساتھ ہی رہیں گے۔ویسے وہ ایل جے پی کے ایم ایل اے رہ چکے ہیں جو آج این ڈی اے میں رہ کر نتیش کمار کی حمایت کر رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ آزاد امیدوار شنکر سنگھ پہلے راؤنڈ  سے پانچوے راؤنڈ تک جے ڈی یو امیدوار کلادھر منڈل کا تعاقب کرتے رہے۔ جیسے ہی چھٹے راؤنڈ کے نتائج آئے، شنکر سنگھ نے کلادھر منڈل سے 501 ووٹوں کی برتری حاصل کی اور پھر آگے بڑھتے رہے۔  بارہویں راؤنڈ میں ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر کم ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کندن کمار نے جیت کا اعلان کیا۔  بارہویں راؤنڈ میں شنکر سنگھ نے 8211 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ہے۔  انہیں 67779 ووٹ ملے۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد شنکر سنگھ کے حامی ایک دوسرے کو گلال لگا کر مبارکباد دے رہے تھے ساتھ ہی ان کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے۔
واضح ہو کہ شنکر سنگھ روپولی اسمبلی سیٹ سے 2000 سے مسلسل الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ وہ  فروری 2005 میں ایل جے پی کے ٹکٹ پر روپولی اسمبلی سے ایم ایل اے بنے تھے۔ تاہم جب نومبر 2005 میں دوبارہ انتخابات ہوئے تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔  وہ روپولی سیٹ سے چھ بار اسمبلی الیکشن لڑ چکے ہیں۔ شنکر سنگھ 2010 کے اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی کے حمایت یافتہ ایل جے پی امیدوار تھے۔ وہ انتخابات میں دوسرے نمبر پر رہے۔ اسی دوران 2015 میں جب انہیں پارٹی سے ٹکٹ نہیں ملا تو انہوں نے آزاد امیدوار کی  حیثیت سے الیکشن لڑا، جس میں وہ تیسرے نمبر پر رہے۔  اسی طرح، 2020 میں، ایل جے پی نے انہیں دوبارہ اپنا امیدوار بنایا، جس میں وہ 44،994 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر تھے۔ اس بارروپولی سیٹ جے ڈی یو کے کھاتے میں تھی۔ شنکر سنگھ ایل جے پی کے ساتھ تھے۔ ٹکٹ ملنے کی نا امیدی میں انھوں نے ایل جے پی سےانھوں نے استعفیٰ دے دیا اور آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا۔ظاہر ہے رپولی کے رائے دہنگان کی اکثریت نےانھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہوئے سیاست کے مہارتھیوں کو متنبہ کر دیا ہے کہ خبردار ، امیدوار اگر گڑ بڑ ہوا تو بہار کے عوام پارٹی سے اوپر اٹھ کر بھی اپنا فیصلہ سنا سکتے ہیں !