تاثیر۱۸ جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لیے مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتا۔(سورۃ البقرہ : 185) سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اس آیت کا سیاق وسباق کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ روزے کی فرضیت نازل فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص بھی ماہ رمضان پائے تو وہ اس میں ضرور روزے رکھے۔ہاں اگر کوئی شخص بیمار یا مسافر ہے تو اسے اجازت ہے کہ بیماری کے ایام یا سفر کے دوران روزے نہ رکھ کر بعد میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔ بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت اور بعد میں اس کی قضا کرنے کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لیے مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتا۔
اسی طرح وہ بوڑھا شخص جو روزہ رکھ ہی نہیں سکتا ،اُسے گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ وہ روزہ نہ رکھے، بلکہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔معلوم ہوا کہ آسانی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم جو چاہیںکریں، کبھی نماز پڑھی اور کبھی نہیں، کبھی زکوٰۃ کی ادائیگی کی اور کبھی نہیں، بلکہ دین میں آسانی کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا کوئی بھی حکم انسانی استطاعت کے باہر نہیں ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمے داری نہیں سونپتا (سورۃ البقرہ :286) مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر روزانہ پانچ نمازوں کی ادائیگی فرض کی ہے، خواہ مرد ہو یا عورت ، غریب ہو یا مال دار، صحت مند ہو یابیمار، طاقت ور ہو یا کمزور، بوڑھا ہو یا نوجوان، مسافر ہو یا مقیم، بادشاہ ہو یا غلام حتیٰ کہ جہاد وقتال کے عین موقع پر میدان جنگ میں بھی یہ فرض معاف نہیں ہوتا۔ ہاں یہ سہولت ہے کہ اگر کوئی شخص کھڑے ہوکر نماز ادا نہیں کرسکتا تو وہ بیٹھ کر پڑھے، اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتا تو لیٹ کر ادا کرے۔ اگر مریض قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ سکتا ہے تو اسے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنی چاہئے، لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا ممکن نہیں ہے تو جس طرف ممکن ہو، رخ کرکے نماز پڑھ لے۔ اسی طرح مرد کو چاہئے کہ وہ فرض نمازمسجد جاکر جماعت کے ساتھ ادا کرے، لیکن عذر کی وجہ سے گھر پر بھی تنہا نماز پڑھ سکتا ہے۔ نماز کے لیے وضو ضروری ہے، لیکن اگر کوئی بیمار وضو نہیں کرسکتا تو وہ تیمم کرکے نماز پڑھے۔وضو میںجو اعضاء دھوئے جاتے ہیں ،اگر اُس جگہ پر پٹی بندھی ہوئی ہے تو وضو کرنے کی صورت میں جس جگہ پر پٹی بندھی ہوئی ہے، اُس جگہ پر گیلے ہاتھ سے مسح کرلے،باقی اعضاء کو دھولے۔ آسانی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نماز ہی نہ پڑھے۔
اسی طرح زکوٰۃ کے فرض ہونے پر زکوٰۃ کی ادائیگی تو کرنی ہے، لیکن اگر مال زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے ضروری نصاب تک نہیں پہنچا یا نصاب سے تو زیادہ ہے ،لیکن اُس پر ایک سال نہیں گزرا یا قرضہ موجود مال سے بھی زیادہ ہے تو زکوٰۃ واجب نہیں۔ اسی طرح شریعت اسلامیہ میں آمدنی پر زکوٰۃ نہیں لگائی گئی، یعنی انسان اپنے اور گھر والوں کی ضرورت، اسی طرح گھر کے سازوسامان اور بچوں کی تعلیم پر جو رقم خرچ کرتا ہے، اُس پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ ہے یعنی اس پر بھی اجر ملے گا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح حج بھی اسلام کا ایک رکن ہے۔ تمام عمر میں ایک مرتبہ صرف اُسی شخص پر فرض ہے ،جسے اللہ تعالیٰ نے اتنا مال دیا ہو کہ اپنے وطن سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے پر قادر ہو اور اپنے اہل وعیال کے مصارف واپسی تک برداشت کرسکتا ہو۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:’’ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کے گھر کا حج کرے۔‘‘ (سورۂ آل عمران : 97)۔ یہاں دین کے بنیادی ارکان کو مثال دے کر سمجھایا گیا کہ دین اسلام میں آسانی کا مطلب اپنی خواہشات کی اتباع نہیں، جیساکہ لامذہب لوگ سمجھتے ہیں ،بلکہ اللہ کے احکام کو نبی اکرمﷺ کے طریقے پر بجالانے کا نام ہی دین ہے، خواہ اس کے لیے کچھ تکلیفیں کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں۔
دین اسلام پر عمل کرنا آسان ضرور ہے، یعنی انسان کو اس کی طاقت سے باہر کسی عمل کا مکلف نہیں بنایا گیا ہے ، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ دین اسلام کے مطابق زندگی گزارنے میں دشواریاں ضرور آتی ہیں، مثلاً فجر کی نماز کی ادائیگی کے لئے یقینا ًصبح کو گہری نیند آنے کے باوجود اٹھنا پڑتا ہے، سردی کے باوجود وضو کرنا پڑتا ہے اور مسجد میں جاکر نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔ مال کی محبت اور ضرورت کے باوجود زکوٰۃ کے فرص ہونے پر اس کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔روزہ رکھنے میںبھوک پیاس برداشت کرنی پڑتی ہے، غرض یہ کہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے احکام الٰہی پر عمل کرنا ضروری ہے، خواہ اس کے لئے مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے۔ہاں یہ بات مسلّم ہے کہ دین صرف عبادات کا نام نہیں۔ عبادات یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی ادائیگی دین اسلام کا ایک اہم حصہ ضرور ہیں، لیکن دین کے دیگر اجزاء مثلاً معاملات اور معاشرت میں بھی شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔بعض حضرات عبادات میں تو فرائض، واجبات، سنن اور نوافل کا مکمل اہتمام کرتے ہیں، لیکن معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو بھول جاتے ہیں، چنانچہ نماز وروزے کی پابندی کے باوجود کاروبار میں جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں یا رشوت لیتے ہیں۔ اسی طرح بعض حضرات دوسروں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہیں۔
اللہ کی اطاعت میں ہمیں میانہ روی اختیار کرنی چاہئے، یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ہمیں حقوق العباد میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ نماز وروزے کی پابندی کے ساتھ بیوی، بچوں، دیگر گھر والوں، پڑوسیوں، رشتے داروں اور دوستوں سب کا خیال رکھنا چاہئے، کیونکہ دین اسلام میں رہبانیت نہیں ہے ،یعنی یہ دین نہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، اُسے چھوڑ کر صرف مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کریں۔ یقیناً قرآن کریم کے اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، اور ذکر نہ کرنے والوں کو نبی اکرم ﷺ نے مُردوں کے مانند قرار دیا ہے، لیکن اللہ کی مخلوقات اور دنیاوی سازوسامان کا جائز استعمال کرکے معاشرےمیں اپنا مقام بنانا اور ہر طرح کے علوم نافع حاصل کرکے ہر جگہ اپنی نمائندگی کو یقینی بنانا بھی دین ہے۔