وہ دوسرے کے گھر پر پتھر کیوں پھینک رہا ہے ؟

تاثیر  یکم   اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ ہیں۔ان کا نام انوراگ ٹھاکر ہے۔ بی جے پی کے چند فائر برانڈ لیڈروں میں ان کا نام سر فہرست ہے۔ اَن پارلیمنٹری لینگویج کے یہ ماسٹر مانے جاتے ہیں۔’’دیش کے غدّاروں کو ، گولی مارو…….کو‘‘ جیسا نعرہ شریمان کا ہی ایجاد کیا ہوا ہے۔ سدن سے لیکر سڑک تک کے لوگ ان کے ’’سنسکار‘ ‘ سے واقف ہیں۔ان کا طنزیہ اندازِ بیان، جو ان کی شخصیت کی پہچان ہے، ہمیشہ ان کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔گزشتہ 30جولائی کو ان کا رویہ ان کا پیچھا کرتے ہوئے پارلیامنٹ تک پہنچ گیا۔ چنانچہ وہاں انھوں نے بر سبیل تذکرہ یہ کہہ دیا ،’’او بی سی مردم شماری کے بارے میں بہت بات کی جاتی ہے۔ عزت مآب چیئرمین، جس کی ذات معلوم نہیں، وہ مردم شماری کی بات کر تا ہے۔‘‘  انوراگ ٹھاکر کے اس طنزیہ تیر کے نشانے پر کون تھا ، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔وہ سیدھے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی پر اوچھی جملے بازی کر رہے تھے۔راہل گاندھی پارلیمنٹ میں اپنی تقریروں کے دوران اکثر ذات پر مبنی مردم شماری کی بات کرتے رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے بجٹ پر جاری بحث کے دوران بھی پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔اسی کا جواب دیتے ہوئے انوراگ ٹھاکر نےایک بار پھر اپنے سنسکار سے ایوان کو متعارف کرایا تھا۔  ٹھاکر صاحبکے اس تیکھے تبصرے پر لوک سبھا میں ہنگامہ تو ہونا ہی تھا۔اسی ہنگامہ آرائی کے درمیان راہل گاندھی نے انوراگ ٹھاکر کے تبصرے کا جواب دیتے ہوئے بڑے سلیقے سے کہا،’’انھوں نے میری توہین کی ہے۔ آپ میری جتنی توہین کرنا چاہتے ہیں، آپ خوشی سے کر سکتے ہیں۔ آپ ہر روز کر سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں۔ ہم یہاں ذات پر مبنی مردم شماری کی منظوری کراکر رہیں گے، آپ جتنا چاہیں ہماری توہین کر سکتے ہیں۔‘‘
کمال کی بات تو یہ ہے کہ انوراگ ٹھاکر نے اپنی تقریر میں کسی لیڈر کا نام نہیں لیا، لیکن کانگریس نے ان کی چالاکی پکڑ لی ۔ کانگریس کا الزام ہے کہ بی جے پی لیڈر نے راہل گاندھی کو نشانہ بنایا۔ ایس پی لیڈر اکھلیش یادو اور دوسرے لیڈروں نے بھی انوراگ ٹھاکر کے رویہ کی تنقید کی۔ خود راہل گاندھی نے بھی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اسے اپنے ساتھ زیادتی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں انوراگ ٹھاکر کے اس بیان پر ان سے معافی کی امید نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی وہ ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے مطالبے پر قائم ہیں۔کل بدھ کو بھی اس معاملے کو لے کر  ایوان میںکافی ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن کے ہنگامے کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی روکنی بھی پڑی۔
  جب ذات کے حوالے سے ہنگامہ آرائی کی بات آتی ہے تو ظاہر ہے اس کے ساتھ کئی سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ کس پارٹی نے ملک میں سب سے پہلے ذات پات کی سیاست کا بیج بویا؟ انتخابات میں امیدواروں کا فیصلہ پس پردہ ذات پات کے تانے بانےکی بنیاد پر کیا جا رہا تھا۔  1989 کے بعد ذات کی سیاست نے ایسا موڑ لیا کہ قوم پرست، لیفٹسٹ، سینٹرسٹ اور سوشلزم کی باتیں کرنے والی پارٹیوں نے بھی کھل کر ذات پات کا کھیل شروع کر دیا۔ اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بہار میں  ذات پر مبنی سروے کے بعد، کانگریس سمیت پوری اپوزیشن نے محسوس کیا کہ انتخابات میں جیت کی کنجی ذات کے ایجنڈے میں ہی ہے۔ ا سی سے’’ ہندوتو‘‘کی سیاست کا خاتمہ ممکن ہے۔ گزشتہ 75 سالوں میں ذات پات اور مذہب کی سیاست  بھارت کی ایک کڑوی سچائی بن چکی ہے، جسے قبول کرنے کی ہمت ہونی چاہئے۔
فی الحال تنازعہ ذات سے متعلق سوال پرہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ انوراگ ٹھاکر نے راہل گاندھی کو نشانہ بنانے کے لیے’’کوئی ذات نہیں ہے‘‘ جیسا بیان دیا تھا۔ کانگریس کے اس دعوے کو سچ نہیں ماننے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود زیادہ تر لیڈر ذات کی بنیاد پر انتخابات میں منتخب ہو کر آئے ہیں۔ انتخابات کے دوران بی جے پی نے نریندر مودی کو بھی پسماندہ یعنی او بی سی کے طور پر پیش کیا تھا۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے راہل گاندھی نے بھی انتخابی جلسوں میں ’’جنیئو‘‘  دکھایا تھا۔ ایوان میں موجود زیادہ تر ارکان پارلیمنٹ مختلف ریاستوں سے مراٹھا، او بی سی، برہمن، ٹھاکر، دلت اور اقلیت کے جھنڈے اٹھائے دہلی پہنچے ہیں۔ جب لیڈر کھلے عام ذات  کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں تو پھر ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرانے اور آبادی کے مطابق منصوبہ سازی اور بجٹ مختص کرنے میں کیا حرج ہے جناب ؟
  ذات پر مبنی مردم شماری سے متعلق سوال پر بھڑکنے اور گالی گلوج پر اتر جانے والے لیڈروں کو یہ بتانا چاہئے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات ٹھاکر، مشرا، دوبے، چوبے اورتیواری وغیرہ کیوں لکھتے ہیں ؟  ذات پر مبنی مردم شماری پر ضرورت سے  زیادہ پریشان ہونے سے پہلے انھیں اپنے گریبان میں بھی تھوڑا جھانک کر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ خود ان کی پارٹی الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم اور جیت کے بعد اپنے ایم پیز اور ایم ایل ایز کی گنتی ذات کی بنیاد پر کرتی ہے یا نہیں۔ کیا لوک سبھا اور اسمبلی کی سیٹوں کی تخصیص کے علاوہ نوکریوں میں ریزرویشن جیسی سہولیات اور کئی ایکٹ بھی اسی سچائی کو ذہن میں ر کھ کر نہیں بنائے گئے ہیں ؟  ذات پات کی سیاست کریں گے ،لیکن ذات پر مبنی  مردم شماری کرانے کے نام پر گالیاں دیں گے۔بہر حال بڑی چالاکی کے ساتھ راہل گاندھی کے حوالے سے پارلیمنٹ میں نن پار لیمنٹری تبصرہ کرنے والے ایم پی سے سوشل میڈیا پر لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’’ٹھاکر صاحب‘‘ کی بیوی اور ان کے بچوں کے نام کے ساتھ       ’’ ٹھاکر‘‘  لگا ہوا ہے تو پھر ان کے والد کا ٹائٹل ’’دھومل‘‘ کیوں ہے ؟  ساتھ ہی لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ جس کا گھر خود شیشے کا ہے، وہ دوسرے کے گھر پر پتھر کیوں پھینک رہا ہے ؟