تاثیر ۳ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
مرنے کے بعد کوئی شخص سات سے آٹھ لوگوں کو زندگی عطیہ کر سکتا ہے
پٹنہ، 03 اگست 2024: ہندوستانی اعضاء عطیہ کے دن کے موقع پرجے پربھا میدانتا سپر اسپیشلٹی اسپتال، پٹنہ میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جہاں لوگوں کو آگاہ کیا گیا کہ یوم اعضاء عطیہ ایک عظیم عطیہ ہے۔ میدانتا اسپتال کے یورولوجی اور نیفرالوجی کے شعبہ کے ڈاکٹر کرشن موہن ساہو اور ڈاکٹر پربھات رنجن نے بتایا کہ موت کے بعد گردے، کارنیا کے ساتھ ساتھ جگر، دل، پینکریاز وغیرہ کا عطیہ کرکے ایک شخص سات آٹھ لوگوں کی جان بچا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موت کے بعد اعضا عطیہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ بہار میں یہ بہت کم ہے، جب کہ گجرات، تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں اعضاء کے عطیہ کو لے کر معاشرے میں پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پٹنہ کے جے پربھا میدانتا سپر اسپیشلٹی اسپتال میں گردے سے متعلق بیماریوں کا بہتر علاج دستیاب ہے۔جہاں جدید ٹیکنالوجی سے ماہر ڈاکٹرکے ذریعے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کرشن موہن ساہو، ڈپارٹمنٹ آف نیفرولوجی کے ڈائرکٹر نے کہا کہ ہر سال دو لاکھ سے زیادہ لوگ ڈائیلاسس پر جا رہے ہیں لیکن ان میں سے صرف 15 ہزار ہی گردے کی پیوند کاری کر پاتے ہیں۔ اعضاء کا عطیہ کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر سال دو لاکھ سے زیادہ لوگ ڈائیلاسس پر جاتے ہیں۔ان کا بہتر علاج کڈنی ٹرانسپلانٹ ہے۔لیکن ڈونر کی کمی کی وجہ سے ان میں سے صرف 15 ہزار کو ہی ٹرانسپلانٹ کی سہولت ملتی ہے۔ ملک میں ہر سال لاکھوں افراد انسانی اعضا عطیہ نہ کرنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔جبکہ اعضا عطیہ کرکے ان کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
آج بھی ہمارے ملک میں اعضاء عطیہ کے حوالے سے معاشرے میں بیداری کی بہت کمی ہے۔جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔اگر انہیں اعضاء عطیہ کے ذریعے ٹرانسپلانٹ کی سہولت مل جائے تو ان کی جان بچائی جا سکتی ہے۔عام طور پر جب گردے کے عطیہ کی ضرورت ہوتی ہے تو صرف خاندان کی خواتین ہی عطیہ دہندگان کے طور پر آگے آتی ہیں۔ اس کے لیے مردوں کو بھی آگے آنا چاہیے۔ اگر کافی لوگ مرنے کے بعد اعضا عطیہ کریں تو اس سے لاکھوں جانیں بچانے میں مدد ملے گی۔ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جب اعضاء کا عطیہ نہیں ہوگا یا بہت کم ہوگا تو ضرورت مندوں کو وہ نہیں مل سکے گا۔
ڈپارٹمنٹ آف یورولوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پربھات رنجن نے کہا کہ لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اعضاء کا عطیہ زندگی کا عطیہ ہے۔اس سے بڑا کوئی عطیہ نہیں ہو سکتا۔ جب بھی عطیہ کرنے والے کا عضو لیا جاتا ہے تو اس کی مکمل حفاظت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک گردہ اور جگر کا کچھ حصہ زندہ رہتے ہوئے عطیہ کیا جا سکتا ہے۔ایک شخص اپنا ایک گردہ عطیہ کرکے معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر ہم اعضاء عطیہ کریں گے تو ہمارے مرنے کے بعد بھی کوئی نہ کوئی ہمارے اعضا کی وجہ سے یہ دنیا دیکھ رہا ہو گا۔