تاثیر ۱۶ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
آزادی کی 78 ویں سالگرہ موقع پر گزشتہ 15 اگست کو پی ایم نریندر مودی نے حسب معمول لال قلعہ کی فصیل سے تقریر کرتے ہوئے ایک بار پھر یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کا ذکر کیاہے۔ پی ایم مودی کا کہنا ہے ،’’ مذہب کے نام پر تقسیم کرنے والے قوانین کو ہٹا یا جانا چاہئے۔ہمارے ملک میں سپریم کورٹ نے بار بار یو سی سی کا چرچہ کیا ہے۔ کئی بار آرڈر دئے ہیں۔ کیونکہ ملک کا ایک بڑا طبقہ مانتا ہے کہ ہم جس سول کوڈ کے تحت رہ رہے ہیں وہ دراصل کمیونل اور امتیاز برتنے والا ہے۔وہ قوانین جو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں۔ اونچ نیچ کا سبب بن جاتے ہیں، ویسے قوانین کی جدید معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ اب ملک کا مطالبہ ہے کہ ملک میں سیکولر سول کوڈ ہونا چاہئے۔کچھ مایوس لوگ ملک کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، ان سے بچ کر رہیں……. ۔‘‘یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پی ایم مودی نے یکساں سول کوڈ کی اس طرح سے وکالت کی ہے۔پچھلے سال، مدھیہ پردیش میں ایک ریلی میں، انہوں نے کہا تھا،اگر خاندان کے ایک رکن کے لئے ایک اصول اور دوسرے رکن کے لئے دوسرا اصول ہو، تو ایسے میںکیا گھر چل سکے گا؟ جب اس طرح ایک گھر نہیں چل سکے گا تو پھر ایسے دُہرے نظام کے ساتھ بھلا ملک کیسے چل پائے گا؟
سیکولر سول کوڈ ، یونیفارم سول کوڈ یا یکساں سول کوڈ کا مطلب ہے تمام مذاہب کے لیے ایک قانون۔ آسان زبان میں کہا جائے تو اس کا مطلب ہے ایک ملک ، ایک قانون ۔ اس وقت ملک تمام مذاہب میں شادی، طلاق، گود لینے کے احکام، وراثت، جائیداد سے متعلق معاملات کے لیے مختلف قوانین موجود ہیں۔ ہندوؤں، سکھوں، جینوں اور بود ھوں کے یہاں شادیات ہندو میرج ایکٹ کے تحت ہوتی ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور پارسیوں کے الگ الگ پرسنل قوانین ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر یو سی سی آتا ہے تو تمام مذاہب کے موجودہ قوانین کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد شادی، طلاق، گود لینے، وراثت اور جائیداد سے متعلق معاملات کے حوالے سے تمام مذاہب کے لئے ایک ہی قانون ہوگا۔ یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ مودی حکومت کے ایجنڈے میں فی الحال سرفہرست ہے۔ بی جے پی کے تین بڑے چناوی وعدے،ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ اور یکساں سول کوڈ کا نفاذ، تھے۔ رام مندر اور 370 کا وعدہ پورا ہوچکا ہے۔ فی الحال یکساں سول کے نفاذ پر دماغ سوزی جاری ہے۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ ملک میں صنفی مساوات اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک یکساں سول کوڈ نہیں اپنایا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ قانون کے مطابق، شادی اس وقت درست سمجھی جاتی ہے جب لڑکی کی عمر 18 سال سے زیادہ ہو اور لڑکے کی عمر 21 سال سے زیادہ ہو۔ تمام مذاہب میں شادی کی قانونی عمر بھی یہی ہے۔ لیکن مسلمانوں میں لڑکیوں کی شادی 15 سال کی عمر میں بھی کر دی جاتی ہے۔ تعدد ازدواج کے حوالے سے یہ بات کی جاتی ہے کہ ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ، پارسی اور جین مذاہب میں صرف ایک شادی کی اجازت ہے۔ دوسری شادی اسی وقت کی جا سکتی ہے جب پہلی بیوی یا شوہر سے طلاق ہو چکی ہو، لیکن مسلمانوں میں مردوں کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔ یو سی سی آنے کے بعد تعدد ازدواج پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اسی طرح طلاق کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ ہندو سمیت کئی مذاہب میں طلاق کے حوالے سے مختلف قوانین ہیں۔ طلاق کی مختلف وجوہات ہیں۔ طلاق لینے کے لئے ہندوؤں کو 6 ماہ اور عیسائیوں کو دو سال تک الگ رہنا پڑتا ہے، لیکن مسلمانوں میں طلاق کے مختلف احکام ہیں۔ یو سی سی آنے پر یہ سب ختم ہو جائے گا۔گود لینے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کچھ مذاہب کے ذاتی قوانین، خواتین کو بچہ گود لینے سے روکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمان عورتیں بچے کو گود نہیں لے سکتی ہیں۔ لیکن ہندو عورتیں بچے کو گود لے سکتی ہیں۔ یو سی سی کی آمد سے تمام خواتین کو بچہ گود لینے کا حق مل جائے گا۔اسی طرح یو سی سی کے نفاذ کے بعدتمام مذاہب میں وراثت اور جائیداد کی تقسیم سے متعلق صرف ایک قانون ہوگا۔ابھی ہندو لڑکیوں کو اپنے والدین کی جائیداد میں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ لیکن اگر کوئی پارسی لڑکی کسی دوسرے مذہب کے شخص سے شادی کرتی ہے تو اسے جائیداد سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 44 میں کہا گیا ہے کہ تمام شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ نافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 44 جانشینی، جائیداد کے حقوق، شادی، طلاق اور بچوں کی تحویل سے متعلق مشترکہ قانون کے تصور پر مبنی ہے۔ سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں میں بھی یکساں سول کوڈ کی ضرورت کو واضح کیا گیا ہے۔
1985میں شا ہ بانو والے کیس سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ ہو یا 2015 میں عیسائی قانون کے تحت ماںکا اپنے بچے کی قدرتی سرپرست نہیں سمجھے جانے سے متعلق دیا گیا فیصلہ۔ 2020 میں، سپریم کورٹ کے ذریعہ ، 2005 میں ہندو جانشینی ایکٹ، 1956 میں کی گئی ترمیم کی تشریح کرکے ہندو بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح آبائی جائیداد میں برابر کا حصہ قرار د ئے جانے کا فیصلہ ہو یا2021 میں، مختلف قانونی رکاوٹوں کو دور کر کے لوگوں کو آزادانہ طور پر مل جل کر رہنے کا ماحول بنانے کے لئے ، پارلیمنٹ کو یکساں خاندانی قانون لانے کے لئے الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ دیا گیا مشورہ، ان کا استعمال کرکے صرف اپنی مرضی کی بات سوچنے اور اپنے سیاسی فائدے کاکام کرنے سے پہلے 21 ویںلاء کمیشن آف انڈیا کی اگست، 2018 میں پیش اس رپورٹ پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے ، جس میں کہا گیا تھا ، اس کے لئے ملک بھرکی ثقافتوں اور مذہبوں کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہوگی۔ساتھ ہی اس بات کا خیال رکھا جا نا چاہئےکہ اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو ۔ذہن میں یہ بھی رکھنا ہوگا کہ اس سے ہمارا تنوع متاثر نہیں ہو ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت بھی محفوظ رہے۔بہر حال اس وقت سول کوڈ کا معاملہ 22ویں لاء کمیشن کے پاس ہے۔ لاء کمیشن نے گزشتہ سال اس پر عام لوگوں سے رائے بھی مانگی تھی۔ ملک کی مذہبی آزادی سے متعلق ، آئین کے آرٹیکل۔ 25 کے مدنظر یکساں سول کوڈ کا ایماندارانہ نفاذ آسان نہیں ہے۔ اور اس لئے آسان نہیں ہے کیوں کہ تمام مذاہب اور ان کے ماننے والوں کے مقامات کے لحاظ سے مختلف قوانین اور مختلف ثقافتیں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صورتحال خواہ جو بھی ہو، آئین کی بنیادی ساخت کا تحفظ ضروری ہے اور اسی میں ملک کا آئینی وقار بھی مضمر ہے۔
۔****************