تاثیر ۲۹ اگست ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
کولکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج کے اسپتال میں 9 اگست کو عصمت دری کے بعد ایک جونیئر ڈاکٹر کے بہیمانہ قتل کا معاملہ زور پکڑ تا جا رہا ہے۔ اب صدر دروپدی مرمو نے بھی اس واقعہ پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ 2012 میں دہلی میں پیش آنے والے نربھیا واقعہ کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’نربھیا واقعے کے بعد سے 12 سالوں میں، سماج عصمت دری کے ان گنت واقعات کو بھول چکا ہے۔ بھول جانے کی یہ اجتماعی عادت قابل نفرت ہے۔ تاریخ کا سامنا کرنے سے ڈر نے والا معاشرہ ہی چیزوں کو بھول جانے کا سہارا لیتا ہے۔‘‘
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب بھی بھارت میں ہر سال خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق چار لاکھ سے زیادہ مقدمات درج ہوتے ہیں۔ ان میں عصمت دری، چھیڑ چھاڑ، جہیز موت، اغوا، خواتین کی سمگلنگ اور اسیڈ اٹیک جیسے جرائم شامل ہیں۔ 2012 میں خواتین کے خلاف جرائم کے 2.44 لاکھ مقدمات درج کیے گئے، 10 سال کے بعد یعنی 2022 میں 4.45 لاکھ سے زیادہ مقدمات درج ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روزانہ اوسطاً 1200 سے زیادہ کیسز رجسٹر ہوئے۔یہ وہ صورت حال ہے، جب 16 دسمبر 2012 کو دہلی میں ایک چلتی بس میں ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور بے دردی سے تمام حدیں پار کرنے پر پورے ملک میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ نربھیا کیس کے نام سے مشہور اس کیس نے پورے ملک کو اس قدر ہلا کر رکھ دیا تھا کہ مرکزی حکومت کو قانون میں تبدیلی کرکے اسے بہت سخت کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ عصمت دری کی تعریف بھی بدل دی گئی، تاکہ خواتین کے خلاف جرائم میں کمی لائی جا سکے۔
سال 2013 میں قانون میں ترمیم کرکے عصمت دری کا دائرہ وسیع کیا گیا۔ اگر زیادتی کے بعد متاثرہ کی موت ہو جائے یا وہ کوما جیسی حالت میں چلی جائے تو مجرم کو پھانسی بھی دی جا سکتی ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں، جووینائل قانون میں بھی ترمیم کی گئی، تاکہ 16 سال اور 18 سال سے کم عمر کا کوئی نابالغ کسی گھناؤنے جرم میں ملوث ہو تو اس کے ساتھ بالغ مجرم جیسا سلوک کیا جا سکے۔ اس ترمیم کی ضرورت تھی کیونکہ نربھیا کے چھ قصورواروں میں سے سب سے نمایاں مجرم ایک نابالغ تھا اور اسے تین سال کی قید کاٹنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ تاہم یہ افسوسناک ہے کہ نربھیا واقعہ کے بعد عصمت دری کے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نربھیا واقعہ کے بعد عصمت دری کے معاملات ٹالنے کے بجائے ان کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا اور ان کا اندراج ہونا شروع ہوگیا۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2012 سے پہلے ملک میں ہر سال عصمت دری کے اوسطاً 25 ہزار کیس درج ہوتے تھے۔ نربھیا واقعہ سے 12 سال پہلے یعنی 2001 میں 16,075 کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ جبکہ 2009 میں 21397، 2010 میں 22172 اور 2011 میں 24206 مقدمات درج ہوئے۔ نربھیا واقعہ کے بعد عصمت دری کی یہ تعداد 30 ہزار سے اوپر پہنچ گئی اور اگلے ہی سال یعنی 2013 میں 33 ہزار سے زیادہ کیس درج ہوئے۔ 2016 میں یہ تعداد 39 ہزار کے قریب پہنچ گئی تھی۔ تاہم اس کے بعد اس میں معمولی کمی آئی ہے۔
یکم جنوری 2024 کو کیولم، کیرالہ میں صنفی مساوات پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ بتایا گیا کہ بھارت میں 2001 کے بعد ریپ کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ 2001 اور 2014 کے درمیان دوگنی سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ اس کانفرنس میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2001 سے 2014 تک ریپ کے واقعات 16,075 سے بڑھ کر 36,735 ہو گئے۔اسی طرح سال 2023 میں بھی خواتین کے خلاف بہت سارے جرائم درج کیے گئے، لیکن عصمت دری اور زیادتی کی کوشش کی شکایات میں کمی آئی۔ خواتین کے قومی کمیشن کو سال 2023 میں خواتین کے خلاف جرائم کی 28,811 شکایات موصول ہوئی تھیں۔ ان میں سے تقریباً 55 فیصد کا تعلق اتر پردیش سے تھا۔
این سی آر بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین اور بیٹیوں کے خلاف جرائم کے واقعات کو کم کرکے ناگالینڈ ان کے لیے سب سے محفوظ ریاست بن گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سال 2022 میں ناگالینڈ میں خواتین کی تعداد 10.7 لاکھ تھی۔ اس عرصے کے دوران جرائم کی شرح یعنی جرم فی ایک لاکھ آبادی پر 4.6 جبکہ قومی اوسط 66.2 ریکارڈ کی گئی۔ تاہم، اگر مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو بھی شامل کیا جائے تو خواتین کے خلاف سب سے کم جرائم لداخ میں درج ہوئے۔ 2022 میں وہاں خواتین کے خلاف 15 مقدمات درج ہوئے۔ جبکہ لکشدیپ میں اس طرح کے 16 معاملے درج کیے گئے۔
مذکورہ صورتحال سےیہی بات واضح ہوتی ہے کہ نربھیا واقعہ کے 12 سالوں میں عصمت دری کے واقعات میں افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اور شاید اس لئے ہوا ہے کہ نربھیا واقعہ کے خلاف جس طرح سے عوامی غصہ پھوٹا تھا، اس کے بعد کے واقعات کے خلاف وہ دور دور تک نظر نہیں آیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 2018 میں، جموں کشمیر کے کٹھوا میں ایک آٹھ سالہ بچی آصفہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد بڑی بے دردی کے ساتھ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد بھی گرچہ ملک بہت مضطرب ہوا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ لوگ ’’ہندو ایکتا منچ‘‘ کا جھنڈا لئے قصورواروں کا بچاؤ بھی کر تے نظر آئے تھے۔بلقیس بانوں جیسے کیس کے مجرموں کے ساتھ ہمارا رویہ بھی خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ کا سبب بنتا رہا ہے۔ 2012 کے بعد بھی ہماری بیٹیا ں ظلم کا شکار ہوتی رہی ہیں، چینختی اور چلاتی رہی ہیں مگر ہمارا مہذب معاشرہ کان میں تیل ڈال کر جرائم پیشوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔ ایسے میں صدر دروپدی مرمو کے ذریعہ معاشرے کو آئینہ دکھایا ہی جانا چاہئے تھا۔
************************