تاثیر ۳ ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
سپریم کورٹ کے ایک تبصرے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ایک خاص نظریہ والی سیاسی جماعت کی ایما پر ملک میں چلایا جا رہا ’’ بلڈوزر جسٹس‘‘ قانون کے دائرے سے باہر ہے۔اپنی مرضی سے جرم طے کرنے اور اس جرم کی سزا کے طور پر کسی کے گھر کو آناََ فاناََ مسمار کر دینے کردینے والا بلڈوز ر سسٹم ملک میں نہیں چل سکتا ہے۔ جمعیۃ علماء ہندکی عرضی نمبر 295/2022 پر گزشتہ سوموار کو سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے ابتدائی تبصرے میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ملزم تو دور کی بات ہے، کسی مجرم کے گھر پر بلڈوزر چلانے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔‘‘ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وہ غیر قانونی تعمیرات کا تحفظ نہیں کرے گی۔ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، لیکن اس کے لیے مناسب پروسس ہونا چاہیے۔ اگر تعمیرات غیر قانونی ہیں تو آپ کارروائی ضرور کیجئے ،لیکن اس میں کچھ باقاعدگی ہونی چاہیے۔ ہم ایسی کارروائی کے لئے طریقہ کار طے کریں گے۔ سماعت کے دوران جسٹس وشواناتھن نے پوچھا کہ ایسے معاملات سے بچنے کے لیے ہدایات کیوں نہیں دی جا سکتیں۔ عدالت نے کہا کہ پہلے نوٹس جاری کیا جانا چاہئے، پھر قانونی چارہ جوئی کے لیے وقت دیا جانا چاہئے، تب ہی گھروں کو مسمار کرنے کی کارروائی کی جانی چاہیے۔بنچ کا کہنا تھا کہ غیر قانونی تعمیرات کا دفاع نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہم کسی بھی غیر قانونی ڈھانچے بشمول مندر کو بھی نہیں بچائیں گے، جو سڑکوں میں رکاوٹ بن رہا ہو، لیکن انہدام کے لیے رہنما خطوط کا ہونا ضروری ہے۔سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے اور سی یو سنگھ نے درخواست گزاروں کی جانب سے جہانگیر پوری، دہلی میں انہدام کی مثال دی، جہاں کچھ معاملات میں کرائے کی جائیدادوں کو بھی منہدم کیا گیا تھا۔انھوں نے استدلال کیا ،’’جے پور میں اسکول میں دوبچوں کا جھگڑا ہوا تو سزا کے طور پر مسلم بچے کے والد کا گھر گرادیا گیا ۔ جب کہ اس مکان کا مالک راشد خاں معمولی رکشہ ڈرائیور ہے، اس نے بڑی مشکل سے پیسے بچا کر گھر خریدا تھا، یہ کیسا انصاف ہے؟ یوپی کے قنوج میں ایک غریب نائی کی دکان گرادی گئی، صرف اس وجہ سے ایک ویڈیو آیا تھا کہ وہ سر پر مالش کرتے ہوئے ہاتھ میں تھوک لگارہا ہے۔ کہاں سے اسے آپ انصاف کہیں گے اور کو ن سے میونسپل لاء میں اسے قانون کے مطابق کہا جائے گا؟ عدالت نے بھی اس کارروائی کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کے بیٹے نے جرم کیا ہے تو اس کے واکد کا گھر گرانا درست طریقہ نہیں ہے۔ یہ تبصرہ تب سامنے آیا جب سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت سے’’ بلڈوزر قانون‘‘ پر روک لگانے سے متعلق ہدایات جاری کرنے کی درخواست کی اور اس کا جواب دیتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ایک غیر منقولہ جائیداد کو محض اس لیے منہدم نہیں کیا جا سکتاکہ اس کا مالک کوئی ملزم ہو۔ انہدام تب ہی ہو سکتا ہے جب کوئی ڈھانچہ غیر قانونی طور پر بنایا گیا ہو۔تاہم، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس معاملے کو عدالت کے سامنے غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے۔اس پر کورٹ کا کہنا تھا کہ اگر آپ اس سے متفق ہیں تو ہم رہنما خطوط جاری کریں گے۔
جسٹس بی آر گوئی اور کے وی ویشوناتھن پر مشتمل بنچ نے مختلف ریاستوں میںچلائے جا رہے ’’بلڈوز رقانون ‘‘ کے خلاف دائر عرضیوں کی سماعت کے دوران فریقین کو غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کے لئے 13 ستمبر تک تجاویز کا خاکہ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے، تاکہ انہیں عدالت کے سامنے اسے بر وقت پیش کیا جا سکے۔ یہ تجاویز سینئر وکیل نچیکتا جوشی کے پاس جمع کی جائیں گی۔ نچیکتا جوشی انہیں مرتب کر کے عدالت کے سامنے پیش کریں گے۔بنچ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے اگلی تاریخ 17ستمبر مقرر کی ہے۔
اس سے قبل ایک مقدمہ جمعیۃ علماء ہند نے جہاں گیر پوری، دہلی میں بلڈوزر کارروائی کے خلاف دائر کیا تھا، جس میں جمعیۃ کو اس وقت بڑی کامیابی ملی تھی۔اس وقت مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو بلڈوز کرنے کی کارروائی پر تو روک لگادی گئی تھی، لیکن اس کے بعد بھی ملک میں لگاتار بلڈوزر ایکشن جاری رہا۔چنانچہ جمعیۃ نے آگے بڑھ کر ملک کی، بی جے پی حکومت والی تین ریاستوں یوپی، راجستھان، مدھیہ پردیش میں انتظامیہ کی جانب سے چلائی جا رہے ’’بلڈوزر جسٹس‘‘ کے خلاف سپریم کورٹ میں خصوصی عرضی داخل کی ہے۔معاملے کی سماعت کے دوران مذکورہ تینوں ریاستوں میں من مانے ڈھنگ سے چلائے جا رہے اس من مانے قانون کے ساتھ ساتھ دہلی میں ہوئے حال کے واقعات بطور مثال پیش کیے گئے۔ ساتھ ہی انھوں نے ریاستی حکومتوں کی جانب سے لوگوں کے گھروں کو منہدم کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ’’ گھر کا حق‘‘ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ’’زندگی کے حق‘‘ کا ایک پہلو ہے۔ عرضی گزار کے وکیل نے مطالبہ کیا کہ منہدم کیے گئے گھروں کی دوبارہ تعمیر کا حکم عدالت کو دینا چاہیے۔
دوسری جانب عدالت میں ہوئی مذکورہ کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے اس معاملے کے اہم فریق صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا محمو د اسعد مدنی کا کہنا ہے کہ بلڈوزر سے انصاف نہیں بلکہ انصاف کا قتل ہو تا ہے۔ جس طرح سے بلڈوزر کی کارروائی کی جاتی ہے اس سے ایک پوری کمیونٹی کو سزا دی جاتی ہے۔کسی ملزم کا گھر گرنے سے صرف اس کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔آپ خواتین کے تحفظ کی بات کرتے ہیں، آ پ نے کچھ سالوں میں ڈیرھ لاکھ مکانات گرادیے، ان کا سب سے زیادہ نقصان ان خواتین، بچے اور بوڑھوں کو ہوتا ہے،جنھوں نے کچھ نہیں کیا مگر درد انھیں کو بھٹکنا پڑتا ہے۔یہ انصاف کا کو ن سا طریقہ آپ نے وضع کیا ہے ؟ اس سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انصاف پسند طبقہ پریشان ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے جمعیۃ علماء ہند ہرممکن جد وجہد کرے گی اور بالکل خاموش نہیں بیٹھے گی۔ہمیں امید ہے کہ عدالت اس پر سخت قدم اٹھائے گی۔ سپریم کورٹ کے اس تبصرے کہ ’’ملزم تو دور کی بات ہے، کسی مجرم کے گھر پر بلڈوزر چلانے کا اختیار کسی کو نہیں ہے‘‘ کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔