تاثیر 23 اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جموں کشمیر اور ہریانہ انتخابات میں اپنا ’’ بٹیں ،گے تو کٹیں گے‘‘ والا ہندتو وادی فارمولہ دوسری ریاستوں کے انتخابات کے موقع پر آزمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ابھی جبکہ ملک کی دو لوک سبھا سیٹوں کے ساتھ ساتھ اتر پردیش کی 9 اور بہار کی 4 سیٹوں سمیت 14 ریاستوں کی کل 48 اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات اور مہاراشٹرو جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے، ایسے میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ یوگی جی اپنے اس آزمودہ فارمولہ کو ایک بار پھر آزمالینے کے معاملے میں کسی سے پیچھے رہ جائیں ؟
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے دوران ، متعلقہ سیاسی پارٹیوں کے بیچ زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی مچی ہوڑ کے درمیان سڑکوں، گلیوں اور چوک چوراہوں پرلگے سی ایم یوگی کا ایک پوسٹر بڑی تیز ی سے وائرل ہو رہا ہے۔اس پوسٹر پر نعرہ کی شکل میں وہی پیغام لکھا ہے، جسے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نےجنماشٹمی کے موقع پر آگرہ میں منعقد ایک پروگرام میں ہندو بھائیوں کو دیا تھا۔ سی ایم یوگی نے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ راشٹرسے بڑا کوئی نہیں ہو سکتا۔ راشٹر تب مضبوط ہو گا جب ہم سب متحد ہوں گے۔ہم ایک رہیں گے تو نیک رہیں گے، بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘۔ سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کے اس پیغام کے آخری جملے کو بی جے پی ایک نعرے کی شکل میں بڑے پیمانے پر استعمال کرتی نظر آرہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش میں بدلے ہوئے سیاسی حالات کے درمیان اقلیتی ہندوؤں پر مظالم کے معاملے پر بھی ان کے اشتعال انگیز بیان کو خوب وائرل کیا جا رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ پوسٹر ممبئی کی سڑکوں پر بی جے پی کارکن وشوبندھو رائے نے لگائے تھے۔ پوسٹرز پر سی ایم یوگی کی تصویر کے ساتھ یہ نعرہ لکھا ہے ’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘۔ اس کے ساتھ سی ایم کے سندیش کے طور پر یہ بھی لکھا ہوا ہے ’’ ایک رہیں گے تو نیک رہیں گے‘‘ ۔ حالانکہ ممبئی میونسپلٹی نے سامنے نظر آنے والے تقریباََ تمام پوسٹرز کو ہٹا دیا ہے۔
اِدھر بہار کے فائر برانڈ لیڈر اور مرکزی وزیر گریراج سنگھ ، جو بات بات میں ملک کے مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دینے کے معاملے میں کافی مشہور ہیں، کی حالیہ ’’ہندو سوابھیمان یاترا ‘‘کو لے کر بھی سیا ست گر م ہے۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے بہار کے سیمانچل علاقے میں ہندو سوابھیمان یاترا نکالی تھی۔ گری راج سنگھ بیگوسرائے سے لوک سبھا کے رکن ہیں، لیکن انہوں نے 18 اکتوبر سے یہ یاترا بھاگلپور سے شروع کی تھی ۔ گری راج سنگھ نے ہندو سوابھیمان یاترا کے دوران کہا تھا’’ ہم پہلے سے کئی جہاد دیکھتے آ رہے ہیں۔اب بیگوسرائے میں ’’تعلیمی جہاد‘‘ چل رہا ہے۔ اس کی وجہ سے میری ثقافت، دولت، زمین اور دھرم سب خطرے میں ہیں۔ اس لیے آج میں ہندوؤں سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے دھرم کی حفاظت کرو، دھرم تمہاری حفاظت کرے گا۔ سب کو متحد رہنا چاہیے۔ صرف منظم ہندو ہی محفوظ ہندو ہیں۔ جہاں ہماری آبادی کم ہوئی ، وہاں ہم نہیں بچ پائے۔ ہم نےکشمیر اور بنگال کو دیکھا ہے۔‘‘حالانکہ بی جے پی اور جے ڈی یو نے خود کو گری راج سنگھ کے اس دورے سے دور رکھا تھا۔گری راج سنگھ نے بھی کہا تھا کہ ان کی اس یاترا کا بی جے پی اور جے ڈی یو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک ہندو کے طور پر اس یاترا پر نکلے ہیں۔ گری راج سنگھ نے یاترا کے دوران اپنی تقریروں میں بار بار کہا تھا کہ وہ ہندوؤں کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔اس دورے کولیکر جے ڈی یو کے ترجمان راجیو رنجن سنگھ نے سوالات بھی اٹھائے تھے۔ دریں اثناءگری راج سنگھ کے ہندو سوابھیمان یاترا کے دوران ہی ارریہ کے ایم پی پردیپ کمار سنگھ کے ایک اشتعال انگیز بیان نے بہار کی سیاست کو مزید گرما دیا ۔دو دن قبل انھوں نے ارریہ میں منعقد ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ’’ہندتو‘‘ کے جذبات میں بہہ کر کہہ دیا ’’ ارریہ میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہنا ہوگا‘‘ انھوں نے بھی سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ اور مرکزی وزیر گریراج سنگھ کی طرح بہت ساری باتیں کہہ کر لوگوں کے ذہن میں یہ بھرنے کی کوشش کی کہ انتخابات کے موقع پر ذات پات کی دیواروں کو توڑ کر صرف ہندو بن جانا ہے۔ تبھی ہمارا دیش اور ہمارا دھرم بچے گا۔ قابل ذکر ہے کہ سیمانچل علاقے میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ سیمانچل میں ارریہ، کٹیہار، پورنیہ اور کشن گنج کے اضلاع شامل ہیں۔ شاید اسی وجہ سے جے ڈی یو کے ترجمان راجیو رنجن سنگھ نے ہندو سوابھیمان یاترا پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ بہار میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار ہے اور ایسے میں اس یاترا کی کیا ضرورت ہے۔ واضح ہو کہ سیمانچل علاقوں میں جے ڈی یو کے بے شمار حمایتی ہیں۔یاد رہے اتر پردیش کے بہرائچ میں حالیہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد کے بعد سوشل میڈیا پر بھی مذہبی منافرت کی آگ لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ جے ڈی یو نہیں چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح سے اس کی آنچ بہار تک پہنچے۔
اِدھربہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو ، سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یاد، پورنیہ کے ایم پی پپو یادو اور بھاکپا مالے کے جنرل سکریٹری لیڈر دیپانکر بھٹاچاریہ وغیرہ نے بھی گریراج سنگھ اور پردیپ کمار سنگھ کے رویہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔تیجسوی یادو کا کہنا ہے کہ ’’مسلمانوں کی طرف بر ی نگاہ سے دیکھنے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ بی جے پی لیڈروں نے سیمانچل علاقے میں عوام کے مسائل پر بات نہیں کی بلکہ وہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘لالو پرساد یادو کا کہنا ہے کہ گریراج سنگھ اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ ہم لوگوں کے رہتے بہار کا ماحول کبھی خراب نہیں ہو سکتا ہے۔ پپو یادو کا ماننا ہے کہ اس طرح کی حرکتوں سے اگر بہار کا ماحول خراب ہوا تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ دیپانکر بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ انتخابات نزدیک ہیں، اس لئے فساد بھڑکانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ واضح ہو کہ بہار کی پڑوسی ریاست جھارکھنڈ میں بھی اسمبلی انتخابات ہو نے جا رہے ہیں اوراگلے سال نومبر میں بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ایسے میں ایک خاص نظریہ کے لوگوں کے ذریعہ ماحول کو بگاڑ نے کی جس ڈھنگ سے کوشش ہو رہی ہے ، تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔