آر سی پی سنگھ کی سیاست پر سوال

تاثیر  01  نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کے ایک عرصے تک قریبی رہے سابق مرکزی وزیر آر سی پی سنگھ نے دیوالی کے دن یعنی جمعرات کو اپنی نئی پارٹی کا اعلان کر ہی دیا۔ وہ اس کام میں کافی دنوں سے لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کا نا م ’’آپ سب کی آواز‘‘ (اے ایس اے) رکھا ہے۔ پٹنہ میں اپنی نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھاکہ آج دیوالی ہے۔ ہر طرف چراغاں ہے۔ یہ چراغ نہ صرف گھروں کو روشن کرتا ہے، بلکہ امیدکی علامت بھی ہے۔ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ انھوں نے اپنی پارٹی کا جو نام رکھا ہے، وہ امیدوں سے بھرا ہوا ہے۔ آر سی پی سنگھ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی پارٹی کا آئین دیگر جماعتوں سے مختلف ہوگا۔آر سی پی سنگھ 2025 میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات مضبوطی سے لڑنا چاہتے ہیں۔ وہ بہار اسمبلی کی 243 میں سے 140 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی تیاری میں لگ گئے ہیں۔
سننے میں آ رہا ہے کہ ’’ آپ سب کی آواز‘‘ پارٹی کے پلیٹ فارم سے بہار کی سیاست میں داخل ہو چکے آر سی پی سنگھ کا اگلا ا قدم اپنے بہار کے کچھ طاقتور لیڈروں کو اپنے ساتھ لاناہے۔ یہ وہ لیڈر ہیں جن کی رسائی پہلے سے عوام میں ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ بات چیت کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے، ان میں بہار کے کچھ ایسے لیڈر بھی شامل ہیں، جن کے ساتھ حتمی مذاکرات کی تصویر ابھی سامنے نہیں آ سکی ہے۔فی الحال کچھ ایسے لیڈر ہیں جو اپنے نئے سیاسی رجحان کی بدولت آر سی پی سنگھ کے رابطے میں ہیں۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے تئیں تلخ کلامی کے لئے مشہور ڈاکٹر ارون کمار اس وقت سابق مرکزی وزیر آر سی پی سنگھ سے رابطے میں ہیں۔ ڈاکٹر ارون کمار 1999 میں جہان آباد لوک سبھا سیٹ سے جنتا دل یو کے ٹکٹ پر پہلی بار ایم پی بنے تھے۔ دوسری بار ڈاکٹر ارون 2014 میں جہان آباد لوک سبھا سے رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔ لیکن اس بار ان کی پارٹی راشٹریہ لوک سمتا دل سیکولر تھی۔مگر 2019 کے بعد ان کی سیاست کا چہرہ بدل گیا اور 2020 میں انہوں نے ’’بھارتیہ سب لوگ پارٹی‘‘ بنائی۔بہار اسمبلی کی 30 نشستوں پر الیکشن لڑا ،لیکن ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکے۔ 2022 میں، ڈاکٹر ارون نے اپنی پارٹی بھارتیہ سب لوگ پارٹی کو لوک جن شکتی پارٹی (آر) میں ضم کر دیا تھا۔ لیکن یہاں بھی وہ زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکے۔ انہیں امید تھی کہ انہیں جہان آباد یا نوادہ لوک سبھا سے الیکشن لڑنے کا موقع ملے گا۔ لیکن جب ایسا نہ ہو سکا تو انہوں نے ایل جے پی سے استعفیٰ دے دیا اور اپریل، 2024 میں بہوجن سماج پارٹی میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے بی ایس پی کے ٹکٹ پر جہان آباد لوک سبھا سیٹ سے بھی الیکشن لڑا تھا، لیکن یہاں سے آر جے ڈی کے سریندر یادو جیت گئے۔ اب آگے کی سیاسی سفر کے ضمن میں ان کی بات چیت آر سی پی سنگھ سے ہو رہی ہے۔

اِدھرمعلوم ہوا ہے کہ سابق مرکزی وزیر پشوپتی پارس بھی آر سی پی سنگھ کے رابطے میں تھے۔ پشوپتی پارس کی شناخت معروف لیڈر رام ولاس پاسوان کے سیاسی منیجر اور ان کے چھوٹے بھائی کے طور پر رہی ہے۔ ویسے الولی اسمبلی حلقہ سے وہ 1972 سے مسلسل 7 بار قانون ساز اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ 2019 میں، پشوپتی پارس اپنے بڑے بھائی رام ولاس پاسوان کی نشست حاجی پور سے ایم پی بنے اور نریندر مودی حکومت میں مرکزی فوڈ پروسیسنگ وزیر بھی رہے۔ فی الحال ایل جے پی کے دونوں لیڈر چراغ پاسوان اور پشوپتی پارس الگ الگ پارٹیاں بنا کر این ڈی اے کی سیاست کر رہے ہیں۔ لیکن لوک سبھا انتخابات 2024 میں، پشوپتی پارس کو این ڈی اے کی جانب سے بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ ان کی پارٹی کو ایک بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔حالانکہ اس وقت ان کی پارٹی کے چار ممبران پارلیمنٹ میں موجود تھے۔ این ڈی اے کے اس رویہ پر اگرچہ انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیاتھا، لیکن بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے انہیں پھر سے راضی کرلیا تھا۔ ا دھر کچھ دن پہلے جب وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی سرکاری رہائش گاہ پر این ڈی اے کی میٹنگ ہوئی تو اس میں پشوپتی پارس کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد سے ہی پشوپتی پارس کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔ اب پشوپتی پارس کی بات آر سی پی سنگھ سے شروع ہوئی ہے۔ اس گفتگو کا رخ کیا ہوگا یہ چند روز بعد سامنے آئے گا۔ دریں اثناآر سی پی سنگھ کی جن دوسرے لیڈروں سے بات جیت کی خبر سامنے آرہی ہے، ان میں ایک نام سورج بھان سنگھ کا بھی ہے۔سورج بھان سنگھ جرائم کی دنیا سے نکل کر 2000 کے اسمبلی انتخابات میں سیاست میں داخل ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر اننت سنگھ کے بڑے بھائی دلیپ سنگھ کو شکست دی تھی۔وہ ایل جے پی کے ٹکٹ پر بلیا سے ایم پی بنے تھے۔ بعد ازاں ان پر الیکشن لڑنے پر پابندی لگا دی گئی۔

’’آپ سب کی آواز‘‘ پارٹی کے قومی صدر آر سی پی سنگھ فی الحال ذات پات کے تانے بانے کے تناظر میں مذکورہ تینوں لیڈروں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ویسے آر سی پی سنگھ کی کوششیں کتنی کارگر ہونگی، یہ تو آنے والا کل ہی بتا سکے گا لیکن ابھی کی بات یہ ہے کہ آر سی پی کی جانب سے نئی پارٹی بنانے کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی حلقوں میں اس کے فوائد اور نقصانات سے متعلق قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ ان کا مشن انتقامی سیاست پر مبنی ہے۔یعنی آر سی پی سنگھ اس بار وہی کام کرنے جا رہے ، جس کام کا بیڑہ پچھلے اسمبلی انتخابات کے موقع پر چراغ پاسوان نے اٹھا یاتھا۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے ، اس کی وضاحت الکشن کے موقع پر ہی ہو سکے گی۔ آر سی پی سنگھ کی سیاست پر ابھی جو بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، ان کے جواب کے لئے تھوڑا انتظار ضروری ہے۔