تاثیر 05 نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
یوپی مدرسہ ایکٹ قانونی ہے یا غیر قانونی؟ سپریم کورٹ نے کل منگل (5 نومبر 2024) کو اس معاملے پر بڑا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے ایک طرف الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے (22 مارچ، 2024) کو پلٹ دیا اور دوسری طرف یوپی مدرسہ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف قرار دیتے ہوئے تمام طلبہ کو عام اسکولوں میں داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی حکم کو کل سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت میں سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریاستی حکومت تعلیم کو باقاعدہ بنانے کے لیے قانون بنا سکتی ہے۔ اس میں نصاب، طلباء کی صحت جیسے بہت سے پہلو شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مدارس مذہبی تعلیم بھی دیتے ہیں، لیکن ان کا بنیادی مقصد تعلیم ہے۔ کسی بھی طالب علم کو مذہبی تعلیم دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت مدرسہ بورڈ کو فاضل اور کامل جیسی ڈگریاں دینے کا حق دیا گیا ہے، مگر یہ یو جی سی ایکٹ کے خلاف ہے۔ اس کو ہٹا یا جاناچاہئے۔ بورڈ کے ذریریعہ ڈگریا ں نہیں دی جا سکتی ہیں۔ایسا کرنا غیر آئینی ، لیکن ایکٹ کا باقی حصہ غیر آئینی ہے۔ یہ تاریخی فیصلہ چیف جسٹس چندر چوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ بورڈ حکومت کی رضامندی سے ایسا نظام بنا سکتا ہے، جہاں وہ مدرسے کے مذہبی کردار کو متاثر کیے بغیر سیکولر تعلیم دے سکے۔ 5 اپریل کو سپریم کورٹ نے یوپی مدرسہ ایکٹ سے متعلق معاملے کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے حکم پر عبوری روک لگا دی تھی۔ سپریم کورٹ نے 22 اکتوبر کو اس معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ یوپی کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامہ میں کہا تھا کہ یوپی مدرسہ بورڈ کے ذریعے دی جانے والی کامل اور فاضل کی ڈگریاں نہ تو یونیورسٹی کی ڈگریوں کے مساوی ہیں اور نہ ہی وہ بورڈ کے ذریعے پڑھائے جانے والے کورسز کے مساوی ہیں۔اس صورت حال میں، مدرسہ کے طلباء صرف ان ملازمتوں کے لیے اہل ہو سکتے ہیں، جن کے لیے ہائی اسکول/انٹرمیڈیٹ کی اہلیت درکار ہوتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 22 مارچ، 2024 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کو غیر آئینی اور سیکولرازم کے اصول کے خلاف قرار دیا تھا۔ جسٹس وویک چودھری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی ڈویژن بنچ نے یوپی کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو بھی ایک منصوبہ بنانے کی ہدایت دی تھی، تاکہ اس وقت مدارس میں زیر تعلیم طلباء کو باقاعدہ تعلیمی نظام میں ایڈجسٹ کیا جا سکے۔ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ یوپی حکومت مدرسہ بورڈ کے طلباء کا داخلہ سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں میںکراکر انھیں ایجوکیشن کی مین اسٹریم میں شامل کیا جائے۔
قابل ذکر ہے کہ معاملے کی سماعت کے دوران اتر پردیش حکومت نے منگل کو سپریم کورٹ کے سامنے مدارس کو برقرار رکھنے اور ان کے تعلیمی نظام میں اصلاح کی دلیل دی تھی۔ یوپی حکومت نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو ختم کرنا غلط تھا، حالانکہ ریاست نے اس فیصلے کو قبول کیا تھا۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی گئی ۔یوپی حکومت کی اس وضاحت کے بعد ہی سپریم کورٹ کے ذریعہ 5 اپریل کو، ہائی کورٹ کے 22 مارچ کے فیصلے پر روک لگا دی تھی۔کل کے فیصلے میںاے ایس جی نے کہا کہ یہ ہمارا قانون ہے۔ ریاست کے پاس مدارس کی تعلیم کو ریگولیٹ کرنے اور ان کی اصلاح کے وسیع اختیارات ہیں۔ اے ایس جی نے کہا کہ ہائی کورٹ کو ایکٹ کو ختم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اسے آرٹیکل 21A اور بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم کے قانون 2009 کی روشنی میں بعض دفعات کی درستگی کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔
بہر حال معاملے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ’’ مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے میں ریاست کا اہم کردار ہے۔ ورنہ یہ ادارے قابل شہری کیسے پیدا کریں گے اگر انہیں ریاضی، سائنس اور دیگر مرکزی دھارے کے مضامین کا علم نہیں ہوگا؟ ہم ایکٹ کی اسی طرح تشریح کریں گے۔ بنچ کا ماننا تھا کہ ایکٹ کو مکمل طور پر منسوخ کرنا بچے کو نہانے کے پانی سے باہر پھینکنے کے مترادف ہوگا۔‘‘ بنچ کا یہ نقطہ نظر مدارس اور مختلف مسلم تنظیموں کے دلائل سے ملتا ہے۔ سی جے آئی کا کہنا تھا کہ’’ ہندوستان بنیادی طور پر ایک مذہبی ملک ہے۔ کیا دینی ہدایات کو تعلیم نہیں سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا مدارس پر پابندی لگانا قومی مفاد میں ہے یا انہیں قومی دھارے میں لایا جانا قومی مفاد میں ہے؟ نصاب کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے مدارس کی تعلیم کو منظم کرنا ریاست کا کام ہوگا۔ ہمیں کینوس کے وسیع دائرہ کار کو دیکھنا چاہیے۔ مذہبی ہدایات صرف مسلم کمیونٹی تک محدود نہیں ہیں، یہ ہر مذہبی طبقے میں موجود ہیں۔ ہندوستان ثقافتوں کا مرکب ہے۔‘‘ بنچ کے اس تبصرے کی پذیرائی سیکولرزم کے تمام علمبرداروں کے ذریعہ کیا جانا فطری ہے۔کل کے بعد سے سب کی زبان پریہی جملہ ہے ’’سیکولرازم کا مطلب ہے جیو اور جینے دو۔ آئیے اسے اسی طرح محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔‘‘