آب و تاب کے ساتھ چراغ روشن ہے

تاثیر  09  نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیت کا درجہ دینے سے انکار کی بنیاد بننے والے 1967 کے ایک عدالتی فیصلے کو کالعدم کردیا ۔ حالانکہ اقلیتی حیثیت کا از سر نو تعین کرنے کا فیصلہ تین ججوں کی بنچ پر چھوڑ دیاگیا ہے۔ سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ نے یہ اہم فیصلہ جمعہ کے روز فیصلہ سنایا ۔ فیصلہ متفقہ نہیں بلکہ 4:3 کے تناسب سے آیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا نے اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کے حق میں رائے دی، جبکہ جسٹس سوریہ کانت، جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ایس سی شرما نے اختلافی رائے کا اظہار کیا۔اپنے فیصلے میںسپریم کورٹ نےاے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کا از سر نو تعین کرنے کا فیصلہ تین ججوں کی بنچ پر چھوڑ دیا ہے۔اپنی اکثریتی رائے میں، چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا ’’ اقلیتی ادارے کمیونٹی کے ثقافتی تانے بانے کو محفوظ رکھنے کے مقصد کے ساتھ قائم کیے جاتے ہیں۔ اقلیتی اداروں میں ریاستی ضابطوں کا اطلاق جائز ہے، لیکن اس سے ادارے کے اقلیتی کردار کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ تعلیمی ادارہ صرف اقلیتی برادری کے مقاصد کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے بنیادی طور پر اس کمیونٹی کو فائدہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا تعین کہ آیا کوئی ادارہ مخصوص کمیونٹی کے ثقافتی تانے بانے کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے قائم کیا گیا تھا، معلومات کے بنیادی ذرائع جیسے یونیورسٹی کی تشکیل کی دستاویزات، خطوط، تقاریر، ادارے کے قیام میں شامل اثاثے، اس کی تخلیق کے وقت آئیڈیا کو نافذ کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات وغیرہ کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔”اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ادارہ اپنا اقلیتی کردار محض اس لیے نہیں کھوسکتا کہ انتظامیہ اب کمیونٹی کے پاس نہیں رہی۔سی جے آئی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایک تین رکنی مستقل بنچ اے ایم یو کے اقلیتی درجے پر حتمی فیصلہ دے گی۔ یہ بنچ سات رکنی بنچ کے فیصلے کے نکات اور معیارات کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔معاملے کی سماعت کرتے ہوئےسی جے آئی نے کہا عدالت کو ادارے کی ابتدا پر غور کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ اسے قائم کرنے کے پیچھے کس کا ارادہ تھا۔اگر تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادارے کی بنیاد اقلیتی کمیونٹی نے رکھی ہے تو وہ آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجہ کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر سپریم کورٹ نے یہ معاملہ ایک مستقل بنچ کے حوالے کیا ہے۔گرچہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ نہیں دیا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں، مگر تین رکنی بنچ کے لیے اس نے کثیر جہتی جانچ کے لئے جواہم معیارات طے کیے ہیں،ان میں سن تاسیس، قیام کے حالات اورانتظامی کردار وغیرہ بھی شامل ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 1967 میںکے ایس عزیز باشا کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ کسی ادارے کو اقلیتی درجہ اس وقت ملے گا جب اسے اسی کمیونٹی کے افراد نے قائم کیا ہو۔ اے ایم یو کے معاملے میں دلیل یہ دی گئی تھی کہ چونکہ یہ ادارہ مسلمانوں نے نہیں بلکہ ایک پارلیمانی قانون کے تحت بنایا گیا تھا، اس لیے اسے اقلیتی ادارہ نہیں مانا جا سکتا۔ جمعہ کو سپریم کورٹ نے اسی فیصلے کو رد کیا تھا۔فیصلے میں کہا گیا ہےکہ آئین کے آرٹیکل 30 میں دیے گئے حقوق مکمل طور پر غیر محدود نہیں ہیں۔ مذہبی کمیونٹیز کو ادارے قائم کرنے کا حق ضرور ہے، مگر ان اداروں کو چلانے کا لامحدود حق نہیں ہے۔ حکومت اقلیتی اداروں کو ریگولیٹ کر سکتی ہے۔ عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی درجہ نہیں رکھ سکتا کیونکہ اس کا قیام ایک قانون کے ذریعے ہو ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ اکثریتی فیصلے کے مطابق کوئی ادارہ صرف اس وجہ سے اپنا اقلیتی درجہ نہیں کھو سکتا کہ اسے قانون کے ذریعے بنایا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ واضح کر دیا ہےکہ کسی ادارے کا قانونی وجود اس کے اقلیتی درجے کے حق سے انکار کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ ادارے کے قیام اور اس کے انتظام میں اقلیتی کمیونٹی کا کردار ہی فیصلہ کن ہوگا۔

واضح ہو کہ 1875 میں سرسید احمد خان کے ذریعہ قائم کردہ اس تعلیمی ادارے نے برصغیر میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ماہرین نے اسے اے ایم یو کے لیے بڑی راحت قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق فیصلے میں طے کیے گئے معیارات کی وجہ سے آگے کا کیس مثبت رہے گا۔ انہوں نے وضاحت کی ہے کہ قانونی طور پر اسے برطانوی قانون سازیہ نے توثیق کی ہے ، مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ قانونی انکارپوریشن اور ادارے کا قیام دونوں الگ چیزیں ہیں۔ اس لیے کوئی اقلیتی کمیونٹی کسی ادارے کو قائم کر سکتی ہے چاہے اس نے کسی اور مدد سے اسے قانونی شکل دی ہو۔معروف ماہر قانون اور چانکیہ نیشنل لا یونیورسیٹی ، پٹنہ کے وایس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کے مسلمانوں اور علی گڑھ کے لیے ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ تین ججوں کی نئی بنچ جو فیصلہ کرے گی اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تمام دلائل کو چیف جسٹس آف انڈیا کی صدارت والی بنچ نے تسلیم کرلیا ہے۔ اس طرح اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت برقرار ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عام لوگوں ملے جلے ردعمل بھی سامنے آ رہے ہیں۔بیشتر لوگوں کا کہنا ہے کہ جس بنیاد پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اے ایم یو کا اقلیتی کردار چھینا تھا، اس کا خارج ہو جانا ایک بڑی کامیابی ہے۔واضح ہو کہ حالیہ برسوں میں بالخصوص دائیں بازو کی جماعتیں اس یونیورسٹی کے خلاف اکثر متنازعہ معاملات اٹھاتی رہی ہیں۔مگر یہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ سازشوں طوفان میں بھی یہ چراغ پورےآب و تاب کے ساتھ روشن ہے۔