وہی مقدر کا سکندر کہلائے گا

تاثیر  10  نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بہار میں چار اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کا مقابلہ سہ رخی ہوتا ہوا نظر آنے لگا ہے۔ بہار میں این ڈی اے کی قیادت کرنے والے نتیش کمار کو اپنے اتحادیوں کی ساکھ قائم کرنی ہے۔ فی الحال این ڈی اے کے پاس چار میں سے صرف ایک سیٹ ہے۔ تین سیٹیں انڈیابلاک کے قبضے میں رہی ہیں۔ ان میں سے دو آر جے ڈی اور ایک اتحادی سی پی آئی (ایم ایل) کے ساتھ ہے۔ رام گڑھ اور بیلا گنج سیٹیں آر جے ڈی کے پاس ہیں، جب کہ تراری سیٹ سی پی آئی (ایم ایل) کے پاس ہے۔ ایچ اے ایم کے کھاتے میں صرف امام گنج کی سیٹ ہے۔ سی پی آئی (ایم ایل) پچھلے اسمبلی انتخابات سے آر جے ڈی کی قیادت والے اتحاد کا حصہ ہے۔ سی پی آئی (ایم ایل) کو بھی آر جے ڈی کے ساتھ رہنے کا فائدہ ملا ہے۔ تیجسوی یادو بہار میں انڈیا بلاک کی قیادت کر رہے ہیں۔ اب چاہےانڈیا بلاک چاروں سیٹیں نہ جیت سکے، تاہم اس کے لیے اپنی تین سیٹیوں کو بچا پانا آسان نہیں ہے۔ ضمنی انتخابات کے اس مقابلے کو سہ رخی بنانے کے لیے پرشانت کشور کی نئی نویلی جن سورج پارٹی بھی قسمت آزمائی کے لیے پہلی بار میدان میں اتر چکی ہے۔جن چاروں سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، ان پر 2020 کے اسمبلی انتخابات میں جیتے ہوئے امیدوار لوک سبھا انتخابات، 2024 میں اپنی اپنی سیٹ سے چناؤ جیت کر پارلیمنٹ چلے گئے ہیں۔

اسمبلی سیٹ کے حساب سے بات کی جائے تو 2020 میں رام گڑھ سیٹ سے آر جے ڈی کے سدھاکر سنگھ ایم ایل اے تھے۔ یہ سیٹ ان کے لوک سبھا الیکشن جیتنے کے بعد خالی ہوئی ہے۔ ان کے بھائی اجیت سنگھ ضمنی انتخاب میں اس سیٹ کے لیے آر جے ڈی کے امیدوار ہیں۔ اجیت سنگھ آر جے ڈی کے ریاستی صدر جگدانند سنگھ کے بیٹے ہیں۔ بی جے پی نے سابق ایم ایل اے اشوک سنگھ کو یہاں سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ 2020 میں، وہ سدھاکر سنگھ سے معمولی فرق سے الیکشن ہار گئے تھے۔ جن سوراج پارٹی نے سشیل کمار کشواہا کو یہاں سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میںسشیل کشواہا نے بکسر سیٹ سے الیکشن لڑا اور ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔جن چار سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں ، ان میں دوسری سیٹ بیلا گنج کی ہے۔یہ سیٹ آر جے ڈی ایم ایل اے سریندر یادو کے ایم پی بن جانے کی وجہ سے خالی ہوئی ہے۔ آر جے ڈی تقریباً تین دہائیوں سے اس سیٹ پر قابض ہے۔ اس بار ضمنی انتخاب میں آر جے ڈی نے سریندر یادو کے بیٹے وشواناتھ یادو کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ این ڈی اے میں سیٹوں کی تقسیم کے بعد یہ سیٹ جے ڈی یو کے کھاتے میں چلی گئی ہے۔ جے ڈی یو نے منورما دیوی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ منورما دیوی ایم ایل سی رہ چکی ہیں۔ جن سوراج نے بھی یہاں اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے۔ اس وجہ سے مقابلہ سہ رخی ہو گیا ہے۔

جہاں تک امام گنج سیٹ کی بات ہے تو اس سیٹ سے پہلے جیتن رام مانجھی ایم ایل اے تھے۔ یہ سیٹ ان کے ایم پی منتخب ہونے کے بعد سے خالی ہے۔ این ڈی اے نے یہاں سے جیتن رام مانجھی کی بہو کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ جن سوراج نے یہاں سے محمد امجد کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ پچھلے اسمبلی انتخابات میں وہ تقریباََ 4 ہزار ووٹوں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اس بار جن سوراج پارٹی کی عوامی مقبولیت اور کچھ محمد امجد کی لیڈرشپ کوالیٹی کی وجہ سےیہ مانا جا رہا ہے کہ جیتن رام مانجھی کی بہو کے لئے اس سیٹ کو بچا پانا آسان نہیں ہوگا۔رہ گئی تراری سیٹ تو انڈیا بلاک نے اسے سی پی آئی (ایم ایل) کو دے دیا ہے۔جن سوراج پارٹی نے یہاں سے کرن دیوی کو اپنا امیدوار بنایا ہے، جب کہ بی جے پی نے سنیل پانڈے کے بیٹے وشال پرشانت کو میدان میں اتارا ہے۔ یہ سیٹ سی پی آئی (ایم ایل) کے قبضے میں رہی ہے۔ سی پی آئی (ایم ایل) نے راجو یادو کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ پرشانت کشور نے بھی یہاں سے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے۔

اس بار کے ضمنی انتخابات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار ان تینوں جماعت کے لیڈروں میں سے ایک ایسے لیڈر ہیں، جن کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ وہ بہار میں این ڈی اے کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ جس طرح عوام نے ان کے کام کو دیکھا ہے اور جن طرح سے پچھلےلوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے کو عوامی حمایت حاصل ہوئی تھی ، اسی طرح ضمنی انتخابات میں بھی حاصل ہوگی۔ اس بار یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے کی 30 سیٹوں پر جیت کے پیچھے نریندر مودی کا جادو تھا یا نتیش کمار کے ایماندارانہ کام کا صلہ۔ تیجسوی یادو 2020 سے بہار کے وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ 17 مہینے تک حکومت میں رہ کر، تیجسوی یادو نوکری دینے والے شخص کے طور پر اپنی شبیہ بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔اس بار ان کی قیادت کون سا گل کھلاتی ہے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔انڈیا بلاک کے قبضے والی اس تینوں سیٹو ں کے انتخابات تیجسوی یادو کے لئے کسی ’’اگنی پریکشا‘‘ سے کم نہیں ہے۔قابل ذکر ہے کہ تیجسوی یادو پچھلے لوک سبھا انتخابات میں کوئی خاص کارنامہ نہیں دکھا سکے تھے۔رہی بات پرشانت کشور کی تو ان کے لئے بھی یہ انتخابات کسی لٹمس پیپر سے کم نہیں ہیں۔پچھلے دو ڈھائی برسوں سے وہ بہار کو بدلنے کانعرہ لگاتے رہے ہیں۔پرشانت اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بہار اسمبلی کی تمام 243 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ویسے ان کی عوامی مقبولیت کی حقیقت کا انکشاف اِس بار کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے ذریعہ ہونے والا ہے۔ حالانکہ کے ان سے وابستہ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ کم سے کم امام گنج اور بیلا گنج کے سیٹ پر جن سوراج کا پرچم لہرانے والا ہے۔مگر یہ دعویٰ ذات پات کے تانے بانے کو توڑ پائے گا یا نہیں ، اس سلسلے میں ابھی کچھ کہہ پانا ممکن نہیں ہے۔واضح ہو کہ ان چاروں سیٹوں کے لئے 13 نومبر کو پولنگ ہونے والی ہے۔ اس طرح آج شام چاروں سیٹوں کا چناوی شور تھم جائے گا او ر اس کے ساتھ ہی 2025 کے اسمبلی انتخابات کو سیمی فائینل مان بیٹھی پبلک کو انتہائی خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے پالے میں کھینچنے کی خاموش جد و جہد شروع ہو جائےگی۔اس جد و جہد میں جو آگے نکلے گا ، در اصل وہی مقدر کا سکندر کہلائے گا۔
****************