تاثیر 26 نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
مہاراشٹر میں مہایوتی اتحاد کی بڑی جیت کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کا عمل آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا ہے۔اسی دوران شیو سینا گروپ کے سربراہ اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کل منگل کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ساتھ ہی ان کی پوری کابینہ بھی مستعفی ہو گئی۔ ساتھ ہی حسب روایت مہاراشٹر کے گورنر سی پی رادھا کرشنن نے ایکناتھ شندے کو اگلی حکومت کی تشکیل تک اپنے عہدے پر برقرار رہنے کو کہا ۔ مانا جا رہا ہے کہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کے ساتھ ہی نئے وزیر اعلیٰ کے حوالے سے پچھلے کئی دنوں سے جاری چرچا کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ اس استعفیٰ کے بعد سے ہی یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ دیویندر فڑنویس ریاست کے نئے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا یا اب تک ہوا ہے ، اس کی حیثیت محض خانہ پری کی ہے۔
اصلی بات یہ ہے کہ بیشتر بی جے پی لیڈر کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس بھی دیویندر فڑنویس کو مہاراشٹڑ کے اگلے وزیر اعلیٰ کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر آگے بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تو دیویندر فڑنویس تیسری بار بحیثیت وزیر اعلیٰ ریاست کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں۔ بی جے پی 132 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔مہا یوتی کی اس شاندار جیت کا سہرا بی جے پی کے لوگ دیوندرفڑنویس کے سر ہی باندھنے میں لگے ہیں۔اِدھر شیو سینا (شندے گروپ) کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کو لے کر کوئی ناراضگی نہیں ہے۔ پی ایم مودی اور امیت شاہ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ سب کے لئے قابل قبول ہوگا۔دریں اثنا ریاستی سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایکناتھ شندے دوبارہ وزیر اعلیٰ بنتے ہیں تو وہ ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کو اچھی طرح کنٹرول کر سکتے ہیں۔اور اگر صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے یعنی دیویندر فڑنویس کو وزیراعلیٰ بنایا جاتا ہے تو ادھو ٹھاکرے کی فوج کوفڑنویس سے براہ راست مقابلہ کرنے کا موقع ملے گا۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی پر دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے شیوسینا کے نام اور نشان کا استعمال کرنے کا الزام لگے گا۔ حکومت کا ہر فیصلہ بی جے پی بمقابلہ مہاراشٹر کے درمیان لڑائی میں بدل سکتا ہے۔جبکہ بعض ماہرین یہ مانتے رہے ہیں کہ ایکناتھ شندے کا چہرہ مراٹھی شناخت کو مضبوط کرے گا۔ اس سے بی جے پی کی دریا دلی اور مراٹھی فخر کا احترام ظاہر ہوگا اور مراٹھی لوگوں میں بی جے پی کی شبیہ مزید مضبوط ہوگی ،جیسا کہ ایکناتھ شندے کے وزیر اعلیٰ بننے کے وقت دیکھا گیا تھا۔ ان کا خیال رہا ہے کہ سی ایم کے طور پر ایکناتھ شندے کی شبیہ گڈ گورننس کی علامت بن گئی ہے۔ ایکناتھ شندے حکومت کی طرف سے شروع کی گئی فلاحی اسکیموں کا مہاراشٹر کے لوگوں پر بہت اثر ہوا ہے۔ لہذا، شندے کو وزیر اعلی کے طور پر بنائے رکھنے سے، مہایوتی کی گڈ گورننس کی شبیہ میں اضافہ ہوگا اور اسکیموں کا اثر عوام میں زیادہ ہوگا۔ ایکناتھ شندے کے حمایتیوں کا یہ بھی دعویٰ رہا ہے کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں وزیراعلیٰ کے چہرے کی تبدیلی سے حکومت کا ایک نئے زاویے سے جائزہ لیا جائے گا اور موجودہ فتح سے جو امیج پیدا ہوا ہے وہ بدل سکتا ہے۔ لیکن ایکناتھ شندے کے سی ایم ہونے سے عوام میں جو اعتماد پیدا ہوا ہے وہ برقرار رہے گا اور مہاوتی اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ مہاراشٹر کی سیاست کو سمجھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ اپنے ڈھائی سالہ دور میں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے مہاراشٹر میں ایک مقبول چہرہ بن چکے ہیں اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھی سراہا جا رہا ہے۔ شندے کی قیادت میں مہایوتی اتحادکی حکومت بہت ہی منظم طریقے سے چلتی رہی ہے۔ چنانچہ اگر ایکناتھ شندے کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بنایا جاتا ہے تو مہاراشٹر میں مہا یوتی اور بھی مضبوط ہو جائے گی اور آئندہ عام انتخابات یا بلدیاتی انتخابات میں مہایوتی اور بھی مستحکم ہوگی۔
ویسےبھی ایکناتھ سنبھاجی شندے مہاراشٹر کی سیاست کا ایک ایسا نام ہے جو پچھلے ڈھائی سال سے اقتدار کے مرکز میں ہیں۔ ایک ناتھ شندے، جو کبھی آٹورکشا چلاتے تھے، نے اسمبلی انتخابات تک مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حکومت کی اور انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ شیو سینا کے لیڈر منتخب ہوئے۔اُدھر اجیت پوار این سی پی کی قانون ساز پارٹی کے لیڈر بن گئے، لیکن بی جے پی کے ذریعہ اپنی قانون ساز پارٹی کے لیڈر کے انتخاب میں تاخیر کی وجہ سے ہی وزیر اعلیٰ کے نام کے سلسلے میں طرح طرح کی باتیں ہورہی ہیں۔اسی درمیان شیوسینا (یو بی ٹی) لیڈر سنجے راوت کا ایک بڑا بیان سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہہ دیا کہ ایکناتھ شندے اور دیویندر فڑنویس کچھ بھی نہیں ہیں۔ پی ایم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ جو چاہیں گے وہی ہوگا۔حالانکہ سنجے راوت کا بھی یہی ماننا تھا کہ فڑ نویس کو وزیر اعلیٰ بننا چاہیے۔ کیونکہ اعداد و شمار بی جے پی کے پاس ہیں۔حالانکہ حالات پوری طرح دیویندر فڑ نویس کے حق میں ہونے کے باوجود ابھی بھی شیو سینا کے کچھ دبی زبان میں یہ کہتے سنے جا رہے ہیں کہ بہار اور ہریانہ ماڈل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایکناتھ شندے کو اس بار بھی سی ایم بنایا جانا چاہئے۔، لیکن یہ ایک بات جو پہلے سے سب کے ذہن میں تھی کہ اس بار وہی ہوگا جو بی جے پی اعلیٰ کمان کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس چاہے گا۔رہی بات ایکناتھ شندے گروپ کو منانے کی تو انھیں دہلی میں بھی ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ تادم تحریر مانا یہی جا رہا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے دیویندر فڑنویس ہی مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہونے والے ہیں۔ اس سے پہلے جو کچھ بھی ہوگا اس کی حیثیت خانہ پری سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہو سکتی ہے۔