تاثیر 3 دسمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
مہاراشٹر میں مہایوتی کی زبردست جیت کے بعد وزیر اعلیٰ کے نام کو لیکر جاری رشہ کشی کے درمیان یہ طے ہو گیا ہے کہ حلف برداری کی تقریب کل (جمعرات، 5 دسمبر )منعقد ہوگی۔ دوسری جانب حتمی طور پر ابھی تک یہ طے نہیں ہو پایا ہے کہ بی جے پی لیڈر دیویندر فڑ نویس ہی وزیر اعلیٰ ہو ںگے۔اگرچہ شیوسینا کے سربراہ ایکناتھ شندے شروع سے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ پی ایم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ جو فیصلہ کریں ، انھیں تسلیم ہوگا۔اس کے باوجود وزیر اعلیٰ کے نام کو لیکر قیاس آرائیاں تھمتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ جس طرح سے اپنی بیماری کی بات کہہ کر ایکناتھ شندے پچھلے دنوں اپنے گاؤں چلے گئے اور پھر یکے با دیگرے میٹنگ کی تاریخیں ملتوی ہوتی رہیں، اس سے یہ کسی کو سمجھتے دیر نہیں لگی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ویسے مہاراشٹر کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اس صورتحال کو شندے کی سیاسی چال قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ پاورفل اور ملائی دار وزارتوں کو لیکر بی جے پی اور شیوسینا کے درمیان بارگیننگ کا کھیل جاری ہے۔ویسے یہ یقینی سمجھا جا رہا ہے کہ ایکناتھ شندے کے حمایتیوں کے لاکھ مطالبے کے باوجود بی جے پی مہاراشٹر میں کسی بھی قیمت پر بہار کا فارمولہ لاگو نہیں کرے گی۔ سب سے زیادہ 132 سیٹوں کی مالک ہونے کی وجہ سے وزیر اعلی کی کرسی وہ اپنےپاس ر کھے گی اور دیویندر فڑنویس وزیر اعلی ہوں گے۔رہی ایکناتھ شندے کی بات تو وہ ریاستی حکومت میں شامل ہوں گے یا انھیں مرکزی حکومت میں جگہ ملے گی، اس کے بارے میںتادم تحریر سسپنس برقرار ہے۔
اِدھر میڈیا میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ بی جے پی اور شیوسینا کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ وزارت داخلہ ہے۔ ایکناتھ شنڈے وزارت داخلہ چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے شیوسینا سربراہ نے گزشتہ سوموار (02 دسمبر) کو کہا تھا کہ آج مہایوتی کی میٹنگ ہوگی، جس میں وزارتوں کی تقسیم ہوگی، لیکن ایکناتھ شندے کی طبیعت ناساز رہنے کی وجہ سے میٹنگ نہیں ہو سکی۔این سی پی کے سربراہ اجیت پوار دہلی روانہ ہو گئے۔ان کے ساتھ ان کی پارٹی کے ایم پی سنیل تٹکرے بھی تھے۔ وہاں ان کی میٹنگ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور دوسرے لیڈروں کے ساتھ ہوئی۔ اس موقع پر شیوسیناکا کوئی بھی لیڈر موجود نہیں تھا۔ شیوسینا سربراہ ایکناتھ شندے کا کہنا ہے کہ ان کے لیڈروں کو دہلی نہیں بلایا گیاہے۔مانا جا رہا ہے کہ ایکناتھ شندے ڈپٹی سی ایم بننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان کی پارٹی کے ایم ایل ایز کو بھی اپنےلیڈر کا ڈیموشن منظور نہیں ہے۔ بی جے پی کے کچھ لوگوں نے چاہا تھا کہ ایکناتھ شندے کے بیٹے اور شیو سینا کے ایم پی شری کانت شندے ڈپٹی سی ایم کی کرسی سنبھال لیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھیں مرکزی حکومت میں ہی وزیر بننے کا آفر تھا، جسے وہ ٹھکرا چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ریاست میں کسی بھی عہدے کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایکناتھ شندے محکمہ داخلہ کی وزارت کے ساتھ رہ کر حکومت کا حصہ بنے رہنا چاہتے ہیں۔
محکمہ داخلہ کی وزارت کے حوالے سے ریاست میں اس بات کی بازگشت سنائی دے رہی کہ ایکناتھ شندے بھلے ہی ڈھائی سال مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ رہے ،لیکن ان کے پاس محکمہ داخلہ نہیں تھا۔ جب مہایوتی حکومت بنی تھی تب بھی وزارت داخلہ دیویندر فڑنویس کے پاس تھی۔ شنڈے اس وقت مداخلت نہیں کر سکتے تھے۔ اس سے پہلے جب شیو سینا کی قیادت میں مہاویکاس اگھاڑی کی حکومت بنی تھی تو یہ بھی اندازہ لگایا گیا تھا کہ وزارت داخلہ شیوسینا کے پاس رہے گی اور شندے وزیر داخلہ ہوں گے، لیکن اس وقت محکمہ داخلہ کا قلمدان این سی پی کےکھاتے میں چلا گیا تھا۔ایسے میں اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ایکناتھ شندے آخر وزیر داخلہ کیوں بننا چاہتے ہیں؟ تواس کا جواب شاید یہ ہے کہ مہاراشٹر میں محکمہ داخلہ رکھنے والے شخص کو ریاست کے وزیر اعلیٰ کے بعد دوسرا طاقتور ترین وزیر مانا جاتا ہے۔ ایسے میں سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے جب شنڈے کو بی جے پی کے لیے وزیر اعلیٰ کا عہدہ چھوڑ نا پڑ رہا ہے تو چاہتے ہیں کہ کم سے کم محکمہ داخلہ ان کے پاس رہے۔ دوسری جانب میڈیا رپورٹ کی مانیں تو بی جے پی محکمہ داخلہ اور وزیر اعلیٰ دونوں عہدوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے اور کسی بھی قیمت پر یہ محکمہ کسی اور کو نہیں دینا چاہتی ہے۔ اُدھر بی جے پی اور شیو سینا کے درمیان عہدے کے لئے جاری اس رسہ کشی کی وجہ حکومت کی تشکیل میں ہو رہی تاخیرکو لیکر این سی پی سربراہ اجیت پوار بے حد ناراض بتائے جا تے ہیں۔
مہاراشٹرکے موجودہ سیاسی حالات کے مد نظر ماہرین کا خیال ہے کہ ریاست میں مستحکم حکومت دینے کے لئے اب بی جے پی کے سامنے دو ہی متبادل ہیں۔پہلا د یویندر فڑنویس کو مرکز میں لایا جائے اور شندے کو وزیراعلیٰ کا عہدہ دیا جائے اور دوسرا شندے کو وزیر اعلیٰ بنائیں اور شیو سینا کو مکمل طور پر بی جے پی میں ضم کیا جائے۔یعنی ان دونوں متبال کا تقاضہ یہی ہے کہ سمجھداری اسی میں ہےکہ ایکناتھ شندے کو ہی سی ایم بنایا جائے۔ بھلے ہی دیویندر فڑنویس نے 132 سیٹیں جیتنے کے بعد ’’سمندر ہوں ، لوٹ کر آؤں گا….. ‘‘ کہہ کر اپنی دھمک دکھائی تھی، لیکن اب یہ مانا جارہا ہے جس دن دیویندر فڑنویس سی ایم بنیں گے، ایکناتھ شندے کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب آ جائے گا۔ یہ سیلاب ایک بارتب ماتوشری میں آ چکا ہے، جب ادھو ٹھاکرے کے خلاف ایکناتھ شندے نے وکٹم کارڈ کھیلا اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کے عوام نے بھی مان لیا تھا کہ شندے کے ساتھ اچھا نہیں ہوا ہے، لیکن اب اگر شندے کو سی ایم کا عہدہ نہیں ملتا ہے تو ظاہرہے وہ پھر عوام کے درمیان جائیں گے۔ اور یہ طے ہے کہ اس بار نشانہ پر کوئی اور نہیں بلکہ خود بی جے پی ہوگی۔